احساسِ کمتری اور خود اعتمادی

انسان اور نفسیات

احساسِ کمتری اور خود اعتمادی

*ڈاکٹر زیرک عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2022ء

ہم زندگی بسر کرنےاور  اپنی ضروریات کو پورا کرنے میں  ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ لوگوں سے تعلق اور رابطہ ، چاہے یہ اپنے گھر کے افراد سے ہی کیوں نہ ہو ، ایک متوازن ذہنی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہم جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو فطری طور پر ہم ان کی گفتگو ، حرکات و سکنات اور لباس کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں۔ پھر اس جائزے کے ذریعے ہم اپنے مخاطب کی شخصیت کے حوالے سے ایک تاثر قائم کرتے ہیں۔ جن کی شخصیت ہمیں اچھی لگتی ہے ہم ان سے مل کر خوش ہوتے ہیں اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ اور زیادہ وقت گزرے۔ وہ موجود نہ ہوں تو ان کے آنے کا انتظار رہتا ہے۔ یہ بات جان کر شاید آپ کو حیرت ہو کہ ایک ایسا ہی تأثر ہم اپنی شخصیت کے حوالے سے بھی قائم کرتے ہیں۔ اس کو آپ چاہیں تو اپنی ذات کی پہچان کہیں یا پھر self-Perception یا Self-esteem کا نام دیں۔ ہمارے دن کا ایک اچھا خاصا حصہ ہماری اپنی ہی صحبت میں گزرتا ہے۔ ہم ہوتے ہیں اور ہمارے خیالات۔ تخیلات کی دنیا اتنی مسحور کن ہے کہ ہزاروں کے مجمع میں بھی آپ تنہائی کا لطف اُٹھا سکتے ہیں۔ اور چاہیں تو تنہا ایک کونے میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کسی خاص محفل کا حصہ بنا لیں۔

دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو

پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

اب ذرا خیالات کی دنیا سے باہر نکلتے ہیں اور مضمون کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اپنی ذات کے حوالے سے اگر کسی کا تأثر منفی ہے تو اس کو احساسِ کمتری یا Low self-esteem کہتے ہیں اور اگر یہ تأثر مثبت ہے تو اسکو خود اعتمادی یا Self-confidence کا نام دیا جاتا ہے۔ جو احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں نہ تو وہ اپنی تنہائی میں خوش رہ سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کی صحبت میں۔ اس کے برعکس خود اعتماد شخصیت کا مالک زیادہ تر خوش رہتا ہے۔ چاہے وہ اوروں کے ساتھ ہو یا پھر تنہائی میں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احساسِ کمتری کیسے پیدا ہوتی ہے اور خود اعتمادی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اور کیا احساسِ کمتری کا شکار شخص پُراعتماد شخصیت کا مالک بن سکتا ہے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب آسان ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں بنیادی فارمولا سمجھ میں آنا چاہئے۔ اس کے لئے ایک آسان سی مثال پیش کی جاتی ہے۔ دودھ پیتا بچہ جب ایک سال کی عمر کا ہوتا ہے تو وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں وہ نہ جانے کتنی مرتبہ گرتا ہے ، پھر اُٹھتا ہے ، کچھ قدم چلنے پر پھر گرتا ہے۔ لیکن وہ ہمت نہیں ہارتا اور لگاتار کوشش کے بعد بالآخر وہ چلنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ بار بار گرنا اس کے عزم کو کمزور نہیں کرتا۔ اپنے پاؤں پر چلنا اس کے اندر اعتماد پیدا کرتا ہے اورمستقبل میں آنے والے نِت نئے چیلنجز کے لئے حوصلہ بڑھاتا ہے۔ اور اسی کا نام خود اعتمادی ہے۔  بچے کی یہ مثال یوں تو ایک عام سی مثال ہے لیکن اس میں پوشیدہ سبق کی گہرائی تک پہنچنا اور اس پر عمل کرنا ہماری زندگی کے اندر بہت بڑی مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس بچے کے لئے پاؤں پر کھڑا ہونے کا چیلنج ایسا ہی ہے جیسے ہمیں آئے روز نِت نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم بھی اس بچے کی طرح ہمت کر کے بار بار  کوشش کریں گے تو ان چیلنجز کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو بالآخر عبور کرکے منزلِ مقصود تک پہنچ ہی جائیں گے۔ بس یہی راز ہے خود اعتمادی حاصل کرنے کا۔ جتنی ہم کوشش کریں گے اور جتنا ہمیں اپنی صلاحیتوں پر یقین ہوگا ، کامیابی کے امکانات اتنے ہی بڑھتے چلے جائیں گے اور جس قدر منفی چیزوں کو پس پشت ڈالیں گے اتنا ہی منزل کی طرف فوکس زیادہ رہے گا۔ اس کے ساتھ اگر ہماری کوئی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی ہو تو سونے پہ سہاگا۔ پیہم کوشش ، اپنی صلاحیتوں پر یقین ، منفی لوگوں یا منفی کمنٹس کو نظر انداز کرنا اور کامیابی کی صورت میں حاصل ہونے والے فوائد و ثمرات پر نظر۔ یہ وہ اجزا ہیں جن سے ہم خود اعتمادی کی لازوال دولت حاصل کر سکتے ہیں۔

ایک خود اعتماد شخص اگرکوشش کے باوجود بھی کامیاب نہ ہوسکے تو وہ تجزیہ کرتا ہے کہ اس سے کہاں غلطی ہوئی تاکہ وہ اگلی بار اسی غلطی کو نہ دہرائے۔ دنیا میں کامیاب ترین لوگوں کا سروے کیا جائے تو ان میں اکثریت ان کی ہوگی جنہوں نے اپنی غلطیوں سے زیادہ سیکھا اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے پر زیادہ توجہ دی ۔ اس کے برعکس احساسِ محرومی یا Low self-esteem رکھنے والا شخص چیلنجز سے گھبرائے گا۔ اپنی صلاحیتوں کی بجائے وہ اپنی ناکامیوں کا ہی سوچتا رہے گا۔ وہ اس بات کا قائل ہوتا ہے کہ وہ چاہے جتنی بھی کوشش کرلے اس نے ناکام ہی ہونا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں کے سر ڈالتا رہتا ہے جس سے اس کے تعلقات بدسے بد تر ہوجاتے ہیں۔ زندگی تو مسائل کے پہیوں پر ہی چلتی ہے۔ طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ازدواجی تعلقات میں اونچ نیچ ہوجاتی ہے تو کبھی معاشی مسائل سر نہیں اٹھانے دیتے۔ کبھی بیماری اچانک دستک دیئے بغیر آپہنچتی ہے تو کبھی اولاد کی پریشانی۔ ان سب سے نمٹنے کے لئے ہمیں احساسِ کمتری سے نکل کر خود اعتمادی کے ساتھ ان مسائل کا سامنا کرنا پڑےگا۔ خود اعتمادی کے ذریعے ہی ہم اپنی زندگی خوشگوار بنا سکتے ہیں اور اسی کے ذریعے ہم دوسروں کے لئے سہارا بن سکتے ہیں۔

وہ قارئین جو احساسِ کمتری کا شکار ہیں ہو سکتا ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کہیں کہ ہم نے ایسا کیا کیا ہے کہ ہمیں ہی موردِ الزام ٹھہرا دیا گیا ہے۔ ہمارے ساتھ بچپن سے ہی نا انصافی ہوتی رہی جس کی وجہ سے آج ہم یہاں کھڑے ہیں۔ اگر ہماری بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہوتی ، ہمیں بے جا تنقید کا نشانہ نہ بنایا گیا ہوتا تو آج ہم بھی پُر اعتماد شخصیت کے مالک ہوتے اور کامیابی کی کئی منازل طے کر چکے ہوتے۔ آپ اپنے اعتراض میں درست ہیں۔لیکناس مضمون میں جس سادہ طریقے سے احساسِ کمتری اور خود اعتمادی کے مسئلہ کو سمجھایا گیا ہے در حقیقت یہ مسئلہ اتنا آسان بھی نہیں ہے ، یقیناً کئی پیچیدگیاں ہیں۔ بعض دفعہ تدبیر بھی کام نہیں کرتی اور تقدیر غالب آجاتی ہے ، کبھی جسمانی بیماری تو کبھی نفسیاتی امراض ، بہر حال بحیثیتِ مسلمان ہمیں اپنی ناکامیوں کو اپنی طرف منسوب کرنا ہوگا اور کمزوریوں کو دور کر کے کامیابی کی طرف سفر اختیار کرنا ہو گا۔ ماضی کی ناکامیوں کی زنجیریں توڑنی ہوں گی اور کامیابی کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ احساسِ کمتری سے باہر آنے کے لئے آپ کو اپنی گزشتہ کامیابیوں کی فہرست بنانی ہوگی۔ چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں۔ جہاں جہاں آپ ناکام رہے ، ان ناکامیوں پر بھی غور کریں کہ مجھ سے کون سی غلطی ہوئی۔ مستقبل میں آنے والے چیلنجز کی تیاری کریں۔ کامیاب اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ لیں۔ اپنی Skills کو Enhance کریں  ( یعنی بڑھائیں )  کامیابی کے لئے خود بھی دعا کریں اور دوسروں سے بھی دعا کروائیں۔ کوئی نہ کوئی اچھی نیت بھی کر لیں کہ اگر میں کامیاب ہو گیا تو فلاں نیک کام کروں گا۔ اور بالخصوص دوسروں کی تنقید سے نہ گھبرائیں۔

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

وہ قارئین جو پُر اعتماد شخصیت کے حامل ہیں ان سے التجا ہے کہ اپنی کامیابیوں کو اللہ پاک کی خاص رحمت سمجھیں ، بصورتِ دیگر آپ خود پسندی ، حُبّ ِمدح ، کفرانِ نِعَم اور غرور و تکبر جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔ حقیقی خود اعتمادی وہ ہے جو آپ کی عاجزی میں اضافہ کرے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ماہرِ نفسیات ، U.K


Share

Articles

Comments


Security Code