فریاد
رشتے ٹوٹنے کے چند اسباب
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2022ء
اے عاشقانِ رسول ! جن کے ساتھ جوڑ کر رکھنا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے انہی میں رشتہ دار بھی ہیں لہٰذا ان سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کے لئے میل جول ، بات چیت اور لین دین وغیرہ معاملات میں اچھا بَرتاؤ کرنا بہت ضروری ہے مگربدقسمتی سے آج لوگ کم علمی ، غلط فہمی ، عدمِ تربیت یا پھر اپنی اَنا ( Ego ) کے سبب بات بات پر رشتوں کوتوڑ کر اور ایک دوسرے سے منہ موڑ کربیٹھ جاتے ہیں ، بات بات پر ان کا اسکرو ڈھیلا ہوجاتا ، پلگ نکل جاتا اور گاڑی شارٹ ہوجاتی ہے ، رشتہ چاہے منگنی یا شادی کے بعد ٹوٹے یا پھربھائی بہنوں اوردیگر رشتہ داروں کے باہمی تعلقات ٹوٹیں ، معاشرے میں پریکٹس یہی ہے کہ جب کسی بات پرکوئی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے تو پھر غیبتوں ، تہمتوں اور بدگمانیوں وغیرہ گناہوں کاایک لمبا سلسلہ چل پڑتا ہے ، اس رشتے کے ٹوٹنے کے متعلق رشتہ داروں کی آپس کی گفتگو کا بڑاحصہ واضح حرام و ناجائز باتوں پر مشتمل ہوتا ہےاور عموماً فَریقَین کی طرف سے ایک دوسرے کو اذیت وتکلیف دینے والی باتیں کی جاتی ہیں ، حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر جب میں نے فی زمانہ رشتوں کے ٹوٹنے کے موجودہ اسباب پر غور کیا تو میرے سامنے چند ایسے اسباب آئے جن کی بنیاد پر رشتہ توڑنا سراسر غلط ہے۔
جھگڑنے اور رشتے ٹوٹنے کے چند اسباب * ” ہم فلاں کے ہاں دعوت میں گئےتھےتو اس نے ہم سے سیدھے منہ بات نہیں کی ، دوسروں سےتوپانی اور کھانے وغیرہ کاپوچھ رہا تھا مگر جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں ایک بار بھی نہیں آیااور اس نے ہمیں کوئی عزت ہی نہیں دی “ ، حالانکہ اس بات کو ہر انسان بخوبی سمجھ سکتاہے کہ دعوت کے دوران میزبان کاذہن عام طور پر ٹینشن کا شکارہوتاہے ، اسے ایک مخصوص وقت میں کئی کام کرنے ہوتے ہیں اور کئی لوگوں کو منہ دینا ہوتا ہے ، بلکہ بسااوقات تو اس کے ذہن پر وہ قرض سوار ہوتا ہے کہ جسے لے کراس نے خاندان والوں اور دیگر جان پہچان والوں کا پیٹ بھرنے کے لئے دعوت کا انتظام کیاہوتاہےایسی حالت میں وہ خود ہمدردی کا محتاج ہوتا ہے اور ہم ہیں کہ گِلے شِکوے لے کر بیٹھ جاتے ہیں * ” ہم نے فلاں کواپنے ہاں دعوت دی تھی مگروہ آئے نہیں لہٰذا اب ہم بھی ان کے ہاں نہیں جائیں گے “ حالانکہ اس کے نہ آنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ، اسے کوئی ایمرجنسی ہوسکتی ہے ، مالی لحاظ سے اس وقت وہ پرابلم کا شکار ہوسکتا ہے ، یااسی طرح کاکوئی اور ایشو ہوسکتاہے جس کے سبب وہ نہ آیا ہو ، وہ نہیں آیااس کاشکوہ ہم نے دس آدمیوں سے تو کیا مگر کیوں نہیں آیا کیا کبھی اس بارے میں ہم نے اُسی سے بات کی ؟ * وہ اس کے گھر پر جاتا ہے میرے گھر نہیں آتا * وہ اس کو تو اپنے ہاں ہر دعوت میں بلاتا ہے مجھے نہیں بلاتا ، تو بھائی اس کو حق حاصل ہےکہ جس کے گھر جائے اورجس کے گھر نہ جائے ، اس کے گھروہ کسی کام سے جاتا ہے اور آپ سے اس کو کوئی کام نہیں لہٰذا وہ آپ کے گھرنہیں آتا ، یوں ہی جسے دعوت میں بلائے اور جسےنہ بلائے اسےاس بات کاحق حاصل ہے ، بسااوقات ہوتایہ ہے کہ کسی آدمی کی طبیعت کے بارے میں پتاہوتا ہے کہ فلاں اگر کسی خوشی کے موقع پربھی آئےگا تو بیڑا غرق کردے گا اور اچھے بھلے ماحول کاسَتْیاناس کردے گا ، اس کے مزاج میں ہی لڑنا جھگڑنا ، طنز و طعنہ ، اعتراضات اور دل دُکھانا ہوتا ہے ، چار آدمیوں میں بیٹھنے کے لائق ہی نہیں ہے ، آپ خود بتائیےکہ ایسوں کواپنی خوشی میں شریک کرے گا کون ؟ نیزبسااوقات مالی لحاظ سے پوزیشن نہیں ہوتی اس لئے آدمی گِنے چُنے افرادکوہی دعوت دیتاہے ، ایسی صورتِ حال میں ناراض ہوجاناٹھیک نہیں ہے بلکہ اپنا دل بڑارکھئے اور خوشی کے موقع پرکی جانے والی دعوت کا پتا چلنے پر اس کو کال کر کے مبارک باددیجئے کہ ما شآءَ اللہ آپ کےہاں یہ ہوا ہے لہٰذابہت بہت مبارک ہو ، اللہ پاک نظرِ ِبَد سے بچائے۔ اتنی سی بات کر دیں کیا حرج ہے * دیکھو یار ! فلاں حج / عمرے پرگیا تھا تو ہمیں نہیں بتایا ، واپس آیاتب بھی نہیں بتایاہمیں تو فلاں سے پتا چلا “ ، توکیااس پرشرعاً واجب تھا کہ آپ کو بتا کر پھرحج یا عمرے پر جاتا اور واپس آنے کے بعد بھی آپ جناب کو خبرکرتا ؟ * اسی طرح جب کوئی حج کے مبارک سفر سے واپس آتاہے تو اوّلاً تومبارک باد کا سلسلہ ہوتا ہے ، اس کے بعد پھرپوچھ گچھ ہوتی ہےکہ کیا لائے ؟ بہنیں الگ پوچھتی ہیں ، بھائی الگ پوچھتے ہیں ، زوجہ الگ پوچھتی ہے ، اولاد الگ پوچھتی ہے ، بہن اور بیٹی کے سسرال والے بھی بولتےہیں کہ ہمارے لئے کیا لائے ؟ داماد صاحب اپنے حصے کی وصول یابی کے لئے الگ بے تاب ہوتے ہیں کہ جناب میرے لئے کیا آیا ہے ؟ بہوبولےگی کہ میرے لئے کیالائے ہیں ؟ یوں بھی ہوتا ہے کہ مثلاً فلاں کو فلاں چیزدی ہےہمیں نہیں دی ، یافلاں کو فلاں چیز زیادہ اور ہمیں کم دی ہے ، فلاں کے بچّوں کے لئے فلاں فلاں چیزیں لائے اور میرے بچّوں کے لئے نہیں لائے ، بہوبولتی ہےاپنی بیٹی کے لئے تو لے کر آئے ہیں میرے لئے نہیں لائے ، اس میں بچوں کے لئے لڑائیاں الگ ہوتی ہیں ، نواسوں کے لئے تو لائے ہیں اورپوتوں کے لئے نہیں لائے ، یاپھریوں کہا جاتا ہوگا کہ پوتوں کے لئے تو لائے اور نواسوں کے لئے نہیں لائے ، بالفرض اگر آپ کے لئےکچھ بھی نہیں لائےیا آپ کوکچھ بھی نہیں دیا تو بتائیےکہ کیاآپ کا شرعی طور پر کوئی حق بنتاتھاکہ آپ کو ملتا مگرنہیں ملا ؟ کسی کو اگر انہوں نےکم یازیادہ دیا اور کسی کو کچھ نہ دیا تو اس بات کا انہیں اختیار ہے نیزیہ تحفوں وغیرہ کاسلسلہ وہ اخلاق ، محبت اور پیار کے دائرے میں کر رہے ہوتے ہیں ، ان پر فرض یا واجب نہیں ہوتاکہ وہ آکر سب کو بانٹیں ، جب ان پر شرعاً لازم نہیں ہے تو آپ بھی ان کے خلاف بات نہ کریں اور ان سے جھگڑانہ کریں ، اگر انہوں نے آبِ زم زم کی ایک چھوٹی سی بوتل اور چند کھجوریں دے دیں تو بھی بہت ہے ، تبرک تبرک ہوتا ہے کم ہو یا زیادہ ، کیاآبِ زم زم تبرک تب ہی ہوتا ہے جب آپ کو اس کاایک بڑاسا کَین دیاجائے ؟ اتنی سی بات پر سامنے والے کو کنجوس کہہ دینا اور دیگر کئی طرح کے برے ناموں سے اسے یاد کرنا اور رشتے توڑ کربیٹھ جانا یقیناًعقل مندی والاکام نہیں۔
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے ! اپنے اندر ہمت ، حوصلہ اورخودداری پیدا کیجئے ، بات بات پر ناراض ہوکر بیٹھ جانے والے اپنے مزاج کوتبدیل کرکے عفوودر گزر اور معافی کے زیور سے خود کو آراستہ کیجئے ، رشتوں کو توڑنے کے بجائے جوڑنے والے کام کیجئے ، اللہ پاک ہم سب پر رحمت کی نظر فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments