قرض وقت پر ادا کیجئے
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021
از : شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّارؔ قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ
معاشرے میں دیگر کئی چیزوں کے ساتھ قرض کی واپسی کے معاملے میں بھی نامناسب اور غلط رویے نظر آتے ہیں۔ غیرت و مُروّت کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس سے قرض لیا ہے اپنے اُس مُحسن کے گھر جَلد جاکر شکریہ کے ساتھ قرض ادا کر آتے ، مگر آج کل حالات اس کے اُلَٹ ہیں۔ بہت سے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وقت پر واپس کرنے کی یقین دہانی کرا کے قرض مانگتے ہیں ، لیکن جب لوٹانے کی باری آتی ہے تو ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود قرض خواہ کو دھکے کھلاتے اور مختلف حیلے بہانے کرکے اسے پریشان کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ذہن جلدی قرض لوٹانے کا ہوتا ہی نہیں ، انہوں نے 6مہینے بعد ہی واپس کرنے کا ذہن بنا رکھا ہوتا ہے ، لیکن قرض لیتے وقت اس بات کو ظاہر نہیں کرتے بلکہ جھوٹ بول کر چند دنوں کی مہلت پر قرض لیتے ، پھر طے شدہ وقت کے پورا ہونے پر کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر مزید مہلت حاصل کرتے ، یوں مہلت پر مہلت لیتے ، سامنے والے کو پریشان کرتے اور رُلا رُلا کر اس کے پیسے واپس کرتے ہیں۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مالدار کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ، 2 / 109 ، حدیث : 2400)اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شرح میں شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مالدار کو یہ جائز نہیں کہ میعاد پوری ہونے پر قرض کی ادائیگی میں حیلہ بہانہ کرے۔ ہاں اگر کوئی تنگ دست ہے تو وہ مجبور اور معذور ہے۔ (نزھۃ القاری ، 3 / 578)
کچھ لوگ ایک بڑی رقم قرض لیتے ہیں اور پھر قرض خواہ کو بلا وجہ توڑ پھوڑ کر یعنی تھوڑی تھوڑی کرکے رقم لوٹاتے ہیں جبکہ بعض تو قرض کے نام پر دوسروں کے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ہڑپ کرجاتے ہیں ، ابھی تو یہ سب آسان لگ رہا ہوگا لیکن قِیامت میں بہت مہنگا پڑجائے گا۔ “ فتاویٰ رضویہ “ میں ہے : جو دنیا میں کسی کے تقریباً تین پیسے دَین (یعنی قرض) دَبا لے گا بروزِ قیامت اس کے بدلے سات سو باجماعت نمازیں دینی پڑ جائیں گی۔ (فتاویٰ رضویہ ، 25 / 69ملخصاً) اے عاشقانِ رسول! اوّلاً تو حتّی الْاِمکان خود کو قرض لینے سے بچائیے اور اگر زندگی میں کسی موقع پر قرض لینا بھی پڑ جائے تو قرض واپس کرتے وقت ایسا انداز نہ ہو جس سے آپ کی عزت اور نیک نامی پر کوئی حرف آئے اور آپ کے دوسروں سے تعلقات خراب ہوں۔ ورنہ قرض خواہ کو اس طرح پریشان کرنے کا ایک دنیاوی نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کی نظروں میں ایسے آدمی کا اعتبار نہیں رہتا اور اگلی بار ضرورت پڑنے پرلوگ اسے قرض دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ کریم مجھے اور آپ کو اپنے دَر کے سِوا کسی کا محتاج نہ بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(نوٹ : یہ مضمون23رمضانُ المبارک1442ھ کی شب مطابق5مئی2021ء کو نمازِ تراویح کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کو دکھا کر ضرورتاً ترمیم کرکے پیش کیا جارہا ہے۔ )
Comments