دیدارِ رسول اور اس کی برکتیں(قسط:02)

اسلامی عقائد و معلومات

دیدارِ رسول اور اس کی برکتیں(قسط : 02)

* مولانامحمد عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بخشش و عطا کی بھی کیا بات ہے! بعدِ وصال بھی غلاموں کو اپنے چہرۂ وَالضُّحیٰ کے انوار و تجلیات سے روشن و منوّر فرما رہے ہیں۔ وصالِ ظاہری کے بعد بھی کئی خوش نصیبوں کو کبھی خواب میں ، تو کبھی بیداری میں اپنے دیدار کی سعادت عطا فرمائی۔ بیداری میں تشریف آوری کا یہ فیضان ایسا وسیع ہے کہ بعد میں آنے والے بے شمار کاملین نے اپنے قلوب و اَذہان کو اُس پیکرِ نور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زیارت سے منوّر کیا ہے۔ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بیداری میں تشریف فرما ہونے اور غلاموں کو اپنے لطف و کرم سے مستفید فرمانے پر اکابر علمائے اُمّت اور عُلَمائے محققین کی اتنی تصریحات موجود ہیں کہ ان تمام کو نقل کرنے کے لئے کثیر صفحات درکار ہیں۔

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : مَنْ رَاٰنِیْ فِی الْمَنَامِ فَسَيَرَانِیْ فِیْ الْيَقَظَةِ وَلَا يَتَمَثَّلُ الشَّيطَانُ بِیْ یعنی جس نے خواب میں مجھے دیکھا وہ عنقریب بیداری میں بھی مجھے دیکھے گا اور شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔[1]

اس حدیثِ پاک کی شرح میں جلیلُ القدر امام ابومحمد عبداللہ بن ابی جمرہ مالکی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : یہ حدیثِ پاک اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس نے حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو خواب میں دیکھا وہ عنقریب بیداری میں دیکھ لے گا۔ یہ حدیثِ پاک اپنے عموم پر ہے جس میں حیاتِ ظاہری اور بعدِ وصال کی کوئی قید نہیں ہے ، الفاظِ حدیث تو عموم ہی کا فائدہ دیتے ہیں اور جو کوئی نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تخصیص کے بغیر اپنی طرف سے خود بخود تخصیص کا دعویٰ کرے وہ تکلف سے کام لینے والا ہے۔ [2]

بے شک بعدِ وفات نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو دیکھنا اور آپ سے فیض لینا اُمّتِ محمدیہ کے بکثرت کاملین کے لئے واقع ہوا ہے۔ جیسا کہ

قیدیوں کو آزاد کرنے والا کون؟

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  کا دورِ خلافت تھا جنگِ مرجُ القبائل کے پہلے دن رومی لشکر ایک بہادر اور جنگی داؤ پیچ میں مہارت رکھنے والے مجاہد حضرت ابوالھَول دَامِس  رحمۃُ اللہِ علیہ کو قیدی بنا کر لے گیا۔ دوسرے دن اِسلامی لشکر پوری تیاری کے ساتھ میدان میں موجود تھا ، دونوں لشکروں میں جنگ جاری تھی ، یکایک مجاہدین نے دیکھا کہ رومی لشکر کے پیچھے سے صفیں چیرتے ہوئے ، رومیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگاتے ہوئے چند مجاہدین آگے بڑھتے چلے آرہے ہیں۔ پہلے تو مجاہدین نے سمجھا کہ شاید یہ فرشتے ہیں جو اللہ پاک نے ہماری مدد کے لئے بھیجے ہیں لیکن جوں ہی وہ قریب آئے تو دیکھا کہ یہ تو وہی حضرت دامس  رحمۃُ اللہِ علیہ  اور ان کے ساتھی ہیں کہ جنہیں کل قیدی بنا لیا گیا تھا۔ جب لشکر کے امیر حضرت میسرہ بن مسروق  رضی اللہُ عنہ نے حضرت دَامِس  رحمۃُ اللہِ علیہ  سے پوچھا : آپ کہاں تھے؟ پورا لشکر آپ کے لئے فکر مند تھا۔ تو انہوں نے بتایا : کل دشمنوں نے ہم پر غلبہ پا کر میرے ساتھیوں سمیت مجھےقیدی بنا لیا اور ہمیں لے جاکر زنجیروں سے باندھ دیا۔ جب رات ہوئی تو میں نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زیارت کی۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : لَا بَاْسَ عَلَيْكَ يَا دَامِسُ اِعْلَمْ اَنَّ مَنْزِلَتِيْ عِنْدَ اللہِ عَظِیْمَۃٌ یعنی اے دَامِس فکر نہ کرو ، جان لو! اللہ پاک کے ہاں میرا مقام و مرتبہ بہت بڑا ہے۔ پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میری زنجیروں پر اپنا دَستِ مبارک رکھا تو وہ فوراً کھل گئیں ، اسی طرح آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے دیگر ساتھیوں کی زنجیریں بھی کھول دیں اور فرمایا : اَبْشِرُوْا بِنَصْرِ اللہِ فَاَنَا نَبِيُّكُمْ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ یعنی خوش ہو جاؤ اللہ کریم کی مدد سے ، میں تمہارا نبی مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ہوں۔ پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےفرمایا : اَقْرِیْ عَنِّيْ مَيْسَرَةً اَلسَّلَامَ وَقُلْ لَّهُ جَزَاکَ اللہُ خَيْراً یعنی اے دامس! میسرہ کو میرا سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ اللہ پاک تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ [3]

بیداری میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زیارت کرنا بالکل ممکن بلکہ کثیر اولیا و صالحین کے لئے ثابت بھی ہے۔ امام جلالُ الدّین سیوطی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے زمانے میں جب کچھ لوگوں نے اس کا انکار کیا تو آپ نے تَنویْرُ الْحَلَک نامی رسالہ لکھ کر نہ صرف اس مسئلے پر دلائل قائم فرمائے بلکہ مخالفین کا رد بھی فرمایا۔ امام ابنِ حجر مکی ، شارحِ بخاری امام سراجُ الدّین ابنِ ملقن ، امام زُرقانی ، شارحِ بخاری امام قَسطلانی ، امام محمد بن یوسف شامی ، امام ابنُ الحاج مالکی ، امام ابنِ ابی جمرہ مالکی وغیرہ جلیلُ القدر ائمہ  رحمۃُ اللہِ علیہم نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بیداری میں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دیدار ممکن ہے جبکہ بعض علما نے بیداری میں دیدارِ رسول کے واقعات بھی نقل فرمائے ہیں جیسا کہ

بیداری میں 75 بار دیدار کیا :

 حضرت علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطی شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ کو جب ایک آدمی نے بادشاہ کے پاس سفارش کے لئے چلنے کی درخواست لکھی تو آپ نے اس کے جواب میں لکھا : میرے بھائی! اَلحمدُلِلّٰہ میں اِس وَقت تک رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمتِ بابَرَکت میں 75 بار بیداری کی حالت میں بِالمشافہ حاضِر ہو چکا ہوں۔ اگر مجھے بادشاہ و اُمَراء کے پاس جانے میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زیارت سے محرومی کا خوف نہ ہوتا تو ضَرور قَلْعَہ میں جاتا اور بادشاہ سے تمہاری سِفارش کرتا۔ میں ایک خادمِ حدیث ہوں ، جن حدیثوں کو مُحَدِّثین کرام نے اپنی تحقیق میں ضعیف کہا ہے ان کی تصحیح کے لئے حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف محتاج ہوں اور بِلاشبہ اس کا نَفْع تمہارے ذاتی نفع سے کہیں زیادہ ہے۔ [4]

اللہ پاک کے ایک ولی کسی فقیہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ اُس فقیہ نے ایک حدیث بیان کی تو وہاں موجود وَلِیُّ اللہ نے فرمایا : یہ حدیث باطل ہے۔ فقیہ نے کہا : آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ تو اُس اللہ کے ولی نے کہا : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تمہارے پاس کھڑے فرما رہے ہیں : یہ میرا فرمان نہیں ہے۔ اُس فقیہ کی آنکھوں سے پردے ہٹ گئے اور اُنہوں نے بھی رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دیدار کر لیا۔ [5]

حضرت شیخ ابو العباس مُرْسِی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : اگر حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  لمحہ بھر کے لئے میری نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں تو میں اپنے آپ کو (خاص مقرب) مسلمانوں میں سے شمار نہ کروں۔ [6]

حضرت ابو اللطائف ابن فارس وفائی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : میرے شیخ حضرت علی  رحمۃُ اللہِ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں پانچ سال کا تھا تو میں شیخ یعقوب  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے پاس قراٰنِ پاک پڑھنے جاتا تھا۔ ایک دن جب میں ان کے پاس گیا تو میں نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو نیند میں نہیں بلکہ بیداری میں دیکھا۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سفید سوتی قمیص زیبِ تن کئے ہوئے ہیں ، پھر اس جیسی قمیص میں نے اپنے جسم پر بھی دیکھی۔ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : پڑھو! میں نے سُوْرَۃُ الضُّحٰی اور سُورَۃُ اَلَمْ نَشْرَحْ پڑھی۔ پھر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ میں اکیس سال کا ہوا تو (ایک دن)  جب مقامِ “ قَرَافہ “ میں فجر کی نماز شروع کی تو میں نے اپنے سامنے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو دیکھا ، آپ نے مجھے سینے سے لگایا اور فرمایا : (وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱) ) ترجَمۂ کنزُالایمان : اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ، اس وقت سے مجھے گفتگو میں کمال حاصل ہوگیا۔ [7] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ان واقعات سے معلوم ہوا کہ جو رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے قربِ خاص رکھتا ہے وہ بعض اوقات آقائے دو جہاں  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے رُخِ روشن کا مشاہدہ بھی کرتا ہے اور حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنے اُن غلاموں سے کلام بھی فرماتے ہیں ، مصافحہ و معانقہ کا شرف بھی عطا فرماتے ہیں۔ مگر اس مقامِ رفعت کو پانے کے لئے دل کاتزکیہ ، نگاہ کی پاکیزگی اور عشقِ رسول بے حد ضروری ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] بخاری ، 4 / 406 ، حدیث : 6993

[2] بہجۃ النفوس ، 4 / 237ملخصاً

[3] فتوح الشام ، 2 / 8

[4] میزان الشریعۃ الکبریٰ ، ص 55

[5] الحاوی للفتاوٰی ، 2 / 314

[6] الحاوی للفتاوٰی ، 2 / 312

[7] الحاوی للفتاوٰی ، 2 / 314


Share

Articles

Comments


Security Code