احکام تجارت
* مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021
جھوٹا سرٹیفکیٹ بنواکر نوکری حاصل کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نویں جماعت تک پڑھا ہوا ہوں، مجھے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ ریلوے میں نوکری نکلی ہے جس میں میٹرک کا سرٹیفکیٹ بنوا کر نوکری حاصل کی جاسکتی ہے تو کیا میں میٹرک کے جھوٹے کاغذات بنوا کر وہ نوکری حاصل کرسکتا ہوں؟نیز اگر کسی نے ایسا کر لیا تو مسلم یا غیر مسلم کمپنی میں اس طرح نوکری حاصل کرکے جو تنخواہ ملے گی وہ حلال ہوگی یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:اگرآپ نے نویں جماعت تک پڑھا ہے اور کاغذات آپ دسویں جماعت تک کے بنوائیں گے اور آگے یہی ظاہر کریں گے کہ میں نے میٹرک کیا ہواہے تو یہ جھوٹ کے ساتھ ساتھ دھوکہ بھی ہوگا اور دھوکہ دینا، جائز نہیں ہے۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’غدر(دھوکہ)وبدعہدی مطلقاً ہر کافر سے بھی حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ،17/348)
لہٰذا آپ کا اس طرح جھوٹے کا غذات بنوا کر نوکری لینا جائز نہیں، البتہ اگر کسی نے ایسا کر لیاتو اگرچہ اس نے ایک ناجائز کام کیا لیکن جو تنخواہ ملے گی وہ کام کے بدلے ملے گی، اگر کام جائز ہے اور اس کام کو مطلوبہ اہلیت کے مطابق درست انجام دیتا ہے تو تنخواہ میں ملنے والی رقم حلال ہوگی۔
لیکن جعلی ڈگری پر حاصل کردہ ہر کام ایسا نہیں ہوگا جو ہر شخص کر سکتا ہو، محنت مزدوری اور عام انداز کے کاموں کو کرنا کوئی مشکل چیز نہیں ہوتی لیکن بہت سارے کام ایسے ہوتے ہیں جن میں سرٹیفکیٹ یا ڈگری اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ شخص یہ کام کرنے کا اہل ہے اور اس نے اس کی مکمل تعلیم و تربیت حاصل کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے لکھا کہ جس نے کسی طبیبِ حاذ ق یعنی ماہر طبیب کے پاس مطلوبہ عرصہ کی تربیت حاصل نہ کی ہو اسے مرض میں ہاتھ ڈالنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ ایک جعلی ڈاکٹر کی اگر ہم مثال سامنے رکھیں تو ایک آپریشن وہ ہے جو ایک مستند ڈاکٹر اپنے علم کی بنیاد پر نہ جانے کتنی چیزوں کو ملحوظ رکھ کر کرے گا جبکہ ایک اَتائی ڈاکٹر محض ایک قصاب کی طرح چیر پھاڑ کرے گا، دیکھنے میں دونوں کا کام ایک ہے اور اتائی ڈاکٹر بھی یہی کہے گا کہ میں نے بھی یہی کام کیا ہے جو ایک مستند ڈاکٹر کرتا ہے تو یہ درست نہیں اور اس کی روزی اور تنخواہ کو ہرگز حلال نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے تو ایک انسانی جان سے کھیلا ہے اور کام کی مہارت ہی میں دھوکہ دہی سے کام لیا ہے اس کے کام کو تو ناقص کام کہا جائے گا۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے:”نا اہل کو اس میں ہاتھ ڈالنا حرام ہے اور اس کا ترک فرض۔ جس نے اس فن کے باقاعدہ نظریات و عملیات حاصل کئے اور ایک کافی مدت تک کسی طبیبِ حاذق کے مطب میں رہ کر کام کیا اور تجربہ حاصل ہوا، اکثر مرضیٰ اس کے ہاتھ پر شفاء پاتے ہوں کم حصہ ناکامیاب رہتا ہو فاحش غلطیاں جیسے بےعلم ناتجربہ کار کیا کرتے ہیں تشخیص و علاج میں نہ کیا کرتا ہو، وہ اہل ہے۔“(فتاویٰ رضویہ ، 24/206)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
غریب سے مہنگا سودا خریدنا باعثِ ثواب ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ غریب سے مہنگا سودا خریدنا بھی ثواب کا کام ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: غریب سے مہنگا سودا خریدنا بھی صدقہ ہے اور اس انداز میں غریب کی عزتِ نفس بھی مجروح نہیں ہوتی۔
امام غزالی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”اگر کسی کمزور سے غلہ خریدے یا کسی فقیر سے کوئی چیز خریدے تو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ زیادہ رقم کو برداشت کرے اور آسانی پیدا کرے، اس صورت میں یہ احسان کرنے والا قرار پائے گا۔
اور اس فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصداق ٹھہرے گا: رحم اللہ امرا سھل البیع سھل الشراء“(مسند ابی یعلی) یعنی اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو خرید و فروخت میں آسانی پیدا کرے۔(احیاء العلوم مترجم، 2/313)
بخاری شریف میں ہے:”عن جابر بن عبداللہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال رحم اللہ رجلاً سمحاً اذا باع و اذااشتری واذا اقتضی“ ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضہ کرتے وقت نرمی سے کام لے۔“( بخاری،1/278)
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ”بیچنے میں نرمی یہ ہے کہ گاہک کو کم یا خراب چیز دینے کی کوشش نہ کرے اور خریدنے میں نرمی یہ ہے کہ قیمت کھری دے اور بخوبی ادا کرے،بیوپاری کو پریشان نہ کرے، تقاضے میں نرمی یہ ہے کہ جب اس کا کسی پر قرض ہو تو نرمی سے مانگے اور مجبور مقروض کو مہلت دے دے اس پر تنگی نہ کرے جس میں یہ تین صفتیں جمع ہوں وہ اﷲ کا مقبول بندہ ہے۔ رب تعالیٰ فرماتاہے:( وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ- )اگر مقروض تنگدست ہو تو اسے وسعت تک مہلت دے دو۔“(مراٰۃ المناجیح،4/397) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
گوبر سے لکڑیاں بنا کر بیچنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل ایک کاروبار چلا ہوا ہے کہ گوبر سے لکڑیاں بنا کر انہیں بیچتے ہیں کیا یہ جائز ہے اور اس کی آمدنی حلال ہوگی؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: گوبر کا استعمال بہت پرانا ہے پہلے زمانے میں گوبر کو تھاپ کر اُپلے بنائے جاتے تھے ۔ آج کل گوبر سے جو لکڑیاں بنائی جاتی ہیں وہ دراصل لکڑیاں نہیں ہوتیں بلکہ ہوتایہ ہے کہ گوبر کو ایک مشین میں ڈالا جاتا ہے اور ایک خاص سائز میں وہ لمبائی کی صورت میں نکل آتا ہے اور اس کی موٹائی بھی سیٹ کردی جاتی ہے اس طرح لانا لے جانا آسان ہوجاتا ہے اور جہاں دیگیں وغیرہ پکائی جاتی ہیں وہاں اسے لکڑیوں کے ساتھ جلادیا جاتا ہے۔
گوبر یا گوبر سے بنے ہوئے اُپلے یا سوال میں جس لکڑی نما چیز کا ذکر ہے یہ سب بیچنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ۔
صدرُالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”گوبر کا بیچنا ممنوع نہیں۔ “
(بہارشریعت،3/478)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دار الافتاء اہل سنت، کھارادر کراچی
Comments