بنے دو جہاں تمہارے لئے

باتیں میرے حضور کی

بنے دو جہاں تمہارے لئے

* مولانا کاشف شہزاد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

اللہ پاک کی عطا سے رحمتِ عالَمیان  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک خصوصی شان یہ ہے کہ حضرت سیّدُنا آدم  علیہ السّلام  سمیت ساری مخلوق آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے لئے ہی پیدا کی گئی ہے۔ [1]

4احادیثِ قُدسیہ :

اے عاشقانِ رسول! آسمان و زمین ، فَرِشتوں ، جِنّات اور جنّت سمیت تمام مخلوق کا رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے لئے بنایا جانا کثیر روایات سے ثابت ہے۔ 4روایات ملاحظہ فرمائیے :

(1)حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عباس  رضی اللہُ عنہما  سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے حضرت سیّدُنا عیسیٰ  علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی : يَا عِيْسٰى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَاْمُرْ مَنْ اَدْرَكَهٗ مِنْ اُمَّتِكَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِهٖ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَاخَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْ لَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ یعنی اےعیسیٰ! محمدِ عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لاؤ اور اپنی اُمّت میں سے ان کا زمانہ پانے والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو۔ اگر محمدِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہ ہی جنّت و دوزخ بناتا۔ [2]

امام محمد بن عبدالباقی زُرقانی مالکی  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس روایت کے تحت فرماتے ہیں : وَهُوَ لَا يُقَالُ رَاْيًا فَحُكْمُهُ الرَّفْعُ یعنی اس طرح کی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی لہٰذا اس روایت کا حکم مرفوع روایت کا ہے(یعنی حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہُ عنہما نے یہ بات نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے سُن کر بیان کی ہے)۔ [3]

امام محمد بن یوسف صالِحی شامی  رحمۃُ اللہِ علیہ نے سیرتِ مصطفیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے متعلق اپنی مایہ ناز کتاب “ سُبُلُ الْهُدىٰ وَالرَّشَاد فِيْ سِيْرَةِ خَيْرِ الْعِبَاد “ میں ایک پورے باب (Chapter) کا نام یہ رکھا : خَلْقُ آدَمَ وَجَمِيْعِ الْمَخْلُوْقَاتِ لِاَجْلِهٖ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی حضرت آدم  علیہ السّلام اور ساری مخلوق کا سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے تَخْلِیق کیا جانا۔ اس باب میں مذکورہ بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام جمالُ الدّین محمود بن جُملہ  رحمۃُ اللہِ علیہ نے ارشاد فرمایا : حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سوا کسی اور نبی یا کسی فرشتے کو یہ فضیلت حاصل نہیں ہوئی۔ [4]

(2)حضرت سیّدُنا جبریلِ امین  علیہ السّلام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے : آپ کا رب ارشاد فرماتا ہے : وَلَقَدْ خَلَقْتُ الدُّنْيَا وَاَهْلَهَا لاُعَرِّفَهُمْ كَرَامَتَكَ وَمَنْزِلَتَكَ عِنْدِيْ وَلَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْيَا یعنی بے شک میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ اے محبوب! میرے نزدیک آپ کی جو قدر و منزلت ہے وہ انہیں بتاؤں اور اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو تَخْلِیق نہ فرماتا۔ [5]

ہوتے کہاں خلیل و بِنا کعبہ و منیٰ

لَوْلَاک والے صَاحبی سب تیرے گھر کی ہے[6]

(3)جب اللہ پاک نے حضرت سیّدُنا آدم  علیہ السّلام  کو پیدا فرمایا تو آپ نےعرش پر نورِ محمدی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرما کر بارگاہِ خداوندی میں عرض کی : اے میرے رب! یہ نور کیسا ہے؟ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : هٰذَا نُوْرُ نَبِىِّ مِّنْ ذُرِّيَّتِكَ اِسْمُهٗ فىِ السَّمَاءِ اَحْمَدُ وَفِى الْاَرْضِ مُحَمَّدٌ لَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُكَ وَلَا خَلَقْتُ سَمَاءً وَلَااَرْضًا یعنی یہ آپ کی اولاد میں سے ایک نبی کا نور ہے جن کا آسمان (کے فرشتوں) میں (مشہور نام) احمدجبکہ زمین (والوں) میں (مشہور نام) محمد ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ آپ کو پیدا کرتا اور نہ ہی آسمان و زمین کو بناتا۔ [7]

زمیں آسماں کچھ بھی پیدا نہ ہوتا

نہ ہوتی جو منظور خِلْقَت تمہاری[8]

(4)ایک حدیثِ قُدسی میں فرمایا گیا : لَوْلَاکَ مَاخَلَقْتُ سَمَاءً وَلَااَرْضًا وَلَا جِنًّا وَّلَا مَلَکًا یعنی اے محبوب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمان و زمین اور جِنّات و فَرِشتوں کو پیدا نہ فرماتا۔ [9]

دنیا کی کیا مجال :

امام شَرَفُ الدّین محمد بن سعید بُوصِیری  رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے مشہورِ زمانہ قصیدۂ بُردہ شریف میں فرماتے ہیں :

وَکَیْفَ تَدْعُوْ اِلَی الدُّنْیَا ضَرُوْرَۃُ مَنْ

لَوْلَاہ ُلَمْ تَخْرُجِ الدُّنْیَا مِنَ الْعَدَمِ

یعنی دنیا کی ضرورتیں اس مبارک ہستی کو اپنی طرف کیسے بُلاسکتی ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو دنیا عدم سے وُجُود میں نہ آتی۔

علّامہ سیِّد عمر بن احمد آفندی حَنَفی  رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : اس شعر میں اس حدیثِ قُدسی کی طرف اشارہ ہے : لَوْلَاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَفْلَاک یعنی اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ فرماتا۔ [10] اَفلاک (آسمانوں) سے مراد دنیا میں موجود ہر چیز ہے ، گویا جُز (Part) بول کر کُل مراد لیا گیا ہے۔ نیز اس واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ معراج کی رات جب سرکارِ نامدار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی کے مقام پر پہنچ کر اللہ پاک کے لئے سجدہ کیا تو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا : اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِویٰ ذٰلِکَ خَلَقْتُہٗ لِاَجْلِکَ یعنی اے میرے پیارے! میں ہوں اور تم ہو ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ اس موقع پر اللہ کے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عرض کی : اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِویٰ ذٰلِکَ تَرَکْتُہٗ لِاَجْلِکَ یعنی اے میرے مالک! میں ہوں اور تیری ذاتِ پاک ہے ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تیرے لئے چھوڑ دیا۔ نیز اس شعر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دنیا رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے تابِع ہے ، آپ اور آپ کے اَصحاب کے لئے بنائی گئی ہے ، پھر بھلا کیسے ممکن ہے کہ یہ مبارک ہستیاں دنیا کے تابِع ہوجائیں یا دنیوی خواہشات سے مَغْلُوب ہوجائیں۔ [11]

امامِ اہلِ سنّت کے4فرامین :

اے عاشقانِ رسول! کئی علمائے اسلام نے رحمتِ کونَین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے باعثِ تخلیقِ کائنات ہونے کو بیان فرمایا ہے۔ چونکہ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں اس لئے ایک ایسے عظیم عاشقِ رسول کے4 فرامین پیش کئے جاتے ہیں جن کا ہر ہر فرمان عین قراٰن و سنّت کے مطابق ہوتا ہے اور جن کی کتاب کا حوالہ دیکھ کر عاشقانِ رسول کے دل مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت ، مُجَدِّدِ دین و ملت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : (1)یہ ضرور صحیح ہے کہ اﷲ عزوجل نے تمام جہان حضورِ اَقدس  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کے لئے بنایا ، اگر حضور نہ ہوتے کچھ نہ ہوتا۔ یہ مضمون احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے جن کا بیان ہمارے رسالہ “ تَلَاْلُؤُ الْاَفْلَاک بِجَلَالِ اَحَادِیْثِ لَوْلَاک

“ میں ہے۔ [1] (2)خُدائی (یعنی مخلوق) کی پیدائش بطفیلِ حضور سَیِّدِ عالم  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم ہے۔ حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا ، حضور تُخْمِ وُجود واصلِ موجود ہیں  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم۔ [2] (3)حضرتِ حق عزجلالہ (اللہ پاک) نے تمام جہان کو حُضور پُرنور محبوبِ اکرم  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کے واسطے پیدا فرمایا ، حُضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا ، تو سارا جہان ذاتِ الٰہی سے بواسطۂ حُضور صاحبِ لولاک  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم پیدا ہوا یعنی حُضور کے واسطے حضور کے صدقے حضور کے طفیل میں۔ [3] (4)ہاں ہاں لَا وَاللہ ثُمَّ بِاللہ ایک دَفْعِ بَلا و حُصُول ِعَطا کیا (یعنی اللہ پاک کی قسم! پھر دوبارہ اللہ پاک کی قسم! صرف مشکلات کا خاتمہ اور عطاؤں کا حصول ہی نہیں بلکہ) تمام جہان(Universe) اور اس کا قِیام ، سب انہیں کے دَم قدم سے ہے۔ عالَم جس طرح اِبتدائے آفرِینِش (یعنی اپنی تخلیق کے معاملے) میں ان کا مُحتاج تھا ، یونہی بَقا میں بھی ان کا محتاج ہے۔ آج اگر ان کا قدم درمیان سے نکال لیں ابھی ابھی فَنائے مُطْلَق (یعنی سب کچھ ختم) ہوجائے۔ [4]

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے[5]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] مواھبِ لدنیہ ، 2 / 271 ، سیرت حلبیہ ، 3 / 422

[2] مستدرک ، 3 / 516 ، حدیث : 4285

[3] زرقانی علی المواھب ، 7 / 186

[4] سبل الہدیٰ والرشاد ، 1 / 74

[5] خصائص کبریٰ ، 2 / 330

[6] حدائقِ بخشش ، ص203

[7] مواھب لدنیہ ، 1 / 35 ، زرقانی علی المواھب ، 1 / 85

[8] شمائمِ بخشش ، ص59

[9] جواہر البحار ، 3 / 42

[10] حضرت علّامہ مولانا علی بن سلطان قاری  رحمۃُ اللہ علیہ  اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں : ان الفاظ کے ساتھ وارد نہیں لیکن اس کے معنی صحیح ہیں۔ (اَلزُّبْدَۃ فی شرح البُردۃ ، ص258)(اس حوالے سے فتاویٰ ملک العلماء ، ص296 کا مطالعہ مفید رہے گا)

[11] عصیدۃ الشہدۃ شرح قصیدۃ البردۃ ، ص118

[12] فتاویٰ رضویہ ، 29 / 113

[13] فتاویٰ رضویہ ، 5 / 301

[14] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 667

[15] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 404

[16] حدائقِ بخشش ، ص178۔


Share