اسلامی عقائد و معلومات
بُزرگانِ دین کا اندازِ جشنِ ولادت
* ابوالنور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021
سرورِ کائنات ، حضور سیّدُالمرسلین ، خاتمُ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی سب سے بڑی نعمت اور وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں۔ حدیثِ قُدسی ہے : لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا یعنی اے محبوب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا پیدا نہ فرماتا۔ [1]
صدیوں سے اہلِ ایمان آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا میلاد اپنے اپنے دور کے اعتبار سے مناتے چلے آرہے ہیں۔ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کا تذکرہ تخلیقِ زمین و آسمان سے لے کر ولادتِ سرورِ کائنات تک ہوتا رہا اور تب سے آج کے دن تک عُشّاق ان کی آمد کے گُن گا رہے ہیں۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی آمد کا دن روزہ رکھ کر منایا ، صحابۂ کرام نے کبھی تو باہم آمدِ سرکار اور اس کے سبب ہونے والے کرمِ خداوندی کا ذکر کرکے میلاد منایا تو کبھی ایران و شام کے محلات میں اسلام کا پرچم لہرا کر آمدِ سرکار کا اعلان کیا ہے۔ محدثینِ عظام نے اپنی کُتب میں ذکرِ میلاد و فضائلِ سرورِ کائنات کے ابواب باندھ کر میلاد منایا اور عُشّاق شعرا نے قصائد لکھ کر میلاد منایا ، الغرض ہرکسی نے اپنی اپنی کیفیت و انداز اور سہولت و حالات کےمطابق آمدِمصطفےٰکا ذکر کیا ہے ہم ذیل میں پچھلے 700 برس تک کے چند بزرگانِ دین کامیلاد منانے کا انداز ذکر کرتے ہیں :
صاحبِ اِربل ابوسعید مظفرُالدین رحمۃُ اللہِ علیہ :
700سال قبل وفات پانے والے اِمام شمسُ الدّین ابو عبداﷲ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 748ھ) کا شمار عالمِ اسلام کےعظیم محدثین و مؤرّخین میں ہوتا ہے۔ اَسماءُ الرّجال کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب “ سِیَر اَعْلامُ النُّبَلاء “ میں کثیر راویوں کے حالاتِ زندگی بیان کئے ہیں۔ امام ذہبی نے اس کتاب میں سلطان صلاحُ الدّین ایوبی کے بہنوئی اور اِربل کے بادشاہ سلطان مظفرُ الدین ابو سعید کوکبری(وفات : 630ھ) کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور ان کی بہت تعریف کی ہے اور ان كے جشنِ میلاد منانے کے بارے میں لکھتے ہیں : “ ملک المظفر کے محفلِ میلاد منانے کا تذکرہ بیان سے باہر ہے ، لوگ جزیرۂ عرب اور عراق سے اس محفل میں شریک ہونے کے لئے آتے۔ کثیر تعداد میں گائیں ، اونٹ اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے۔ وہ صوفیا کے لئے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا اور واعظین وسیع و عریض میدان میں بیانات کرتے اور بادشاہ کثیر مال خرچ کرتا۔ اِبنِ دحِیْہ کَلْبی نے اس کے لئے “ میلادُ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم “ کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو بادشاہ نے اسے ایک ہزار دینار دیئے۔ وہ منکسرُ المزاج اور راسخُ العقیدہ سنی تھا ، فقہا اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ سبط ابن الجوزی کہتے ہیں : مظفر الدین ہر سال میلاد پر تین لاکھ دینار ، خانقاہوں پر دو لاکھ دینار جبکہ مہمان خانوں پر ایک لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ اس محفل میں شریک ہونے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ میں نے خود شمار کیا کہ میلاد کی محفل میں اس کے دستر خوان پر پانچ ہزار بھنی ہوئی سِریاں ، دس ہزار مرغیاں ، ایک لاکھ دودھ سے بھرے مٹی کے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال تھے۔ “ [2]
شاہِ اربل کے بارے میں عظیم متکلم و شارح علّامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : بادشاہ مظفر شاه اِربل اس معاملے میں بہت زیادہ توجہ دینے والا اور حد سے زیادہ اہتمام کرنے والا تھا۔ علّامہ ابوشامہ(جوامام نووی کےشیوخ میں سے ہیں) انہوں نے اپنی کتاب اَلْبَاعِثْ عَلٰی اِنْکَارِ الْبِدَعِ وَالْحَوَادِث میں اس اہتمام پر اس (بادشاہ) کی تعریف کی اور فرماتے ہیں : اس طرح کے اچھے اُمُور اسے پسند تھے اور وہ ایسے افعال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرتا تھا۔ امام جَزْری رحمۃُ اللہِ علیہ اس پر اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسے اعمال کرنے سے صرف شیطان کی تذلیل اور اہلِ ایمان کی مسرت و خوشی مقصود ہے۔ [3]
شیخ ابوالطیب محمد بن ابراہیم السَّبتی المالکی رحمۃُ اللہِ علیہ :
امام جلالُ الدّین سُیوطی شافعی نے اَلْحَاوِی لِلْفَتَاویٰ میں 700سال پہلے وصال فرمانے والے شیخ امام کمالُ الدّین الادفوی (وفات : 748ھ) کا قول نقل کیا ہے کہ “ ہمارے ایک دوست ناصرُ الدّین محمود بن عمّاد نے ہمیں بتایا کہ ابوطیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت کے دن مدرسے میں چھٹی کردیتے اور مدرسے کے استاذ فقیہ عثمان سے فرماتے : اے فقیہ! آج خوشی و مسرّت کا دن ہے ، بچّوں کو رخصت دے دو۔ پس ہمیں رخصت دے دی جاتی۔ ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد منانا اچھا ہونے کا ثبوت ہے شیخ محمد بن ابراہیم مالکیوں کے بہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فن تھے اور بڑے زُہد و تقویٰ والے تھے۔ علّامہ ابوحیان اور دیگر علما نے ان سے اِکتسابِ فیض کیا ہے اور انہوں نے 695ھ میں وفات پائی۔ “ [4]
اہلِ مکہ کا یومِ ولادت پر انداز :
450 سال پہلے وصال فرمانے والے بزرگ امام محمد بن جارُ اﷲ ابنِ ظہیر رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 986ھ) اپنی کتاب “ اَلْجَامِعُ الَّلطِیف “ میں لکھتے ہیں : مکّہ شریف میں بارہ(12) ربیعُ الاوّل کی رات کو اہلِ مکّہ کا یہ معمول ہے کہ قاضیِ مکہ جو کہ شافعی ہیں ، مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جَمِّ غَفِیر کے ساتھ مَوْلِدشریف (ولادت گاہ) کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں دیگر تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی ، اکثر فقہا ، فضلا اور اہلِ شہر ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ [5]
اہلِ مکہ کے میلاد شریف منانے کے بارے میں 400 سال پہلے وصال فرمانے والے عظیم محدث حضرت علّامہ علی بن محمد سلطان المعروف مُلّا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ امام سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 902ھ) نے ارشاد فرمایا : اہل ِمکّہ خیرو برکت کی کان ہیں۔ وہ سوقُ الليل میں واقع اس مشہور مقام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جائے ولادت ہے تا کہ ان میں سے ہر کوئی اپنے مقصد کو پالے۔ یہ لوگ عید (میلاد) کے دن اس اہتمام میں مزید اضافہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نیک یا بد اس اہتمام سے پیچھے رہ جائے۔ خصوصا ًامیرِ حجاز بھی خوشی خوشی شرکت کرتے ہیں۔ اور مکہ کے قاضی اور عالم البرہانی الشافعی نے بے شمار زائرین ، خدّام اور حاضرین کو کھانا اور مٹھائیاں کھلانے کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔ اور وہ (امیرِ حجاز) اپنے گھر میں عوام کےلئے وسیع و عریض دسترخوان بچھاتا ہے ، یہ امید کرتے ہوئے کہ آزمائش اور مصیبت ٹل جائے۔ اور اس کے بیٹے جمالی نے بھی خدام اور مسافروں کے حق میں اپنے والد کی اتباع کی ہے۔ [6]
اہلِ مدینہ کا یومِ ولادت پر انداز :
حضرت علّامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ نے اہلِ مکہ کی طرح اہلِ مدینہ کے میلاد منانے کا بھی ذکر کیا ہے ، لکھتے ہیں : اللہ کریم اہلِ مدینہ کی کثرت فرمائے وہ بھی اسی طرح محافل منعقد کرتے ہیں اور اس طرح کے امور بجا لاتے ہیں۔ [7]
مزید حضرت علّامہ ابواسحاق ابراہیم بن عبدالرحمٰن ابن جُماعہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں : جب وہ مدینۂ منوّرہ میں تھے ، یومِ میلاد النبی پر کھانا تیار کیا کرتے اور لوگوں کو کھلاتے اور فرماتے اگر میں وسعت پاؤں تو پورا مہینا ہر روز یونہی میلاد مناؤں۔ [8]
امام تقی الدین سُبکی رحمۃُ اللہِ علیہ :
700سال قبل وصال فرمانے والے اِمام تقی الدّین ابوالحسن علی بن عبد الکافی السبکی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 756ھ) کا ذکرِ سرورِ کائنات کے وقت اظہارِ محبت و عشق بھی نرالا تھا ، سیرتِ حلبیہ میں ہے : اِمام تقی الدین سبکی کے ہاں اُن کے کثیر ہم عصر علما جمع ہوتے تھے ، اور پڑھنے والا مدحِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں الصرصری کے درج ذیل اشعار پڑھتا :
قَلِيْل لِمَدْحِ الْمُصْطَفٰي الْخَطُّ بِالذَّهَب عَلٰي وَرِقٍ مِنْ خَطِّ اَحْسَنَ مَنْ کَتَب
یعنی حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح میں چاندی کے وَرق پر سونے کے پانی سے اچھے خوش نویس کے ہاتھ سے نہایت خوبصورت انداز میں لکھنا بھی کم ہے۔
وَاِنْ تَنْهَضَ الْاَشْرَافُ عِنْدَ سَمَاعِه قِيَامًا صُفُوْفًا اَوْ جِثِيًّا عَلَي الرَّکَب
اور یہ بھی کم ہے کہ دینی شرف و عظمت والے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذکرِ جمیل کے وقت صفیں بنا کر کھڑے ہوجائیں یا گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں۔
جب یہ اشعار پڑھے گئے امام تاج الدین سبکی اور تمام حاضرینِ محفل کھڑے ہوگئے ، اس وقت بہت سرور حاصل ہوتا۔ [9]
محدثِ عظیم ملا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ :
400سال پہلے وصال فرمانے والے عظیم محدث و متکلم مُلّا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 1014ھ) میلادُ النبی کے موقع پر ضیافتوں اور صدقہ و خیرات کا تذکرہ کرنے کے بعد اپنے بارے میں اور میلادُ النبی کے عنوان پر اپنی تالیف “ اَلْمَوْرِدُ الرَّوِی فِی مَوْلِدِ النَّبَوِی “ کے بارے میں لکھتے ہیں : “ جب میں ظاہری دعوت و ضیافت سے عاجز ہوا تو یہ اَوراق میں نے لکھ دیئے تاکہ یہ معنوی ضیافت ہوجائے اور زمانہ کے صفحات پر ہمیشہ رہے ، سال کے کسی مہینے سے مختص نہ ہو اور میں نے اس کا نام “ اَلْمَوْرِدُ الرَّوِی فِی مَوْلِدِ النَّبَوِی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم “ رکھا ہے۔ [10]
میلاد کا باقاعدہ اہتمام اور علمائے کرام :
میلادُ النبی کو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ منانے کے متعلق چند علمائے سابقین کا کلام ملاحظہ کیجئے : * نویں صدی ہجری کے بزرگ حضرت سیّدنا امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے رسالے “ حُسْنُ الْمَقْصَدِ فِی عَمَلِِ الْموْلِد “ میں تحریر فرماتے ہیں : رسولِ معظّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا میلاد منانا جو کہ اصل میں لوگوں کے جمع ہو کر بہ قدر سہولت قراٰن خوانی کرنے اور ان روایات کا تذکرہ کرنے کا نام ہے جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں منقول ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت ظاہر ہونے والے ایمان افروز واقعات کا بیان ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ کھانا کھاتے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں : اس اہتمام کرنے والے کو حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے میلاد پر اظہارِ فرحت و مسرت کی بنا پر ثواب سے نوازا جاتا ہے۔ [11]
* نویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ ، شارحِ بخاری ، شیخُ الاسلام ، حافظُ العصر ، ابوالفضل ابنِ حجر عسقلانی رحمۃُ اللہِ علیہ سے میلاد شریف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتا چلا ہے۔ صحیحین (یعنی بخاری و مسلم) سے ثابت ہے کہ حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ تشریف لائے تو یہود کو عاشورا (یعنی دس محرمُ الحرام) کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ وہ عرض گزار ہوئے کہ اس دن اللہ پاک نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السّلام کو نجات دی ، ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں شکر بجالانے کے لئے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اللہ پاک کی طرف سے کسی احسان و انعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں اللہ پاک کا شکر بجالانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔ اللہ پاک کا شکر نماز و سجده ، روزہ ، صدقہ اور تلاوتِ قراٰن و دیگر عبادات کے ذریعے بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت سے بڑھ کر اللہ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لئے اس دن ضرور شکر بجالانا چاہئے۔ [12]
* دسویں صدی ہجری کے بزرگ حضرت محمد بن یوسف صالحی شامی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب “ سُبُلُ الْهُدىٰ وَالرَّشَاد فِی سِيْرَةِ خَيْرِ الْعِبَاد “ میں نقل فرماتے ہیں : حافظ ابوالخیر سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ارشادفرمایا : (محفلِ میلادُ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) قُرونِ ثلاثہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لئے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اِخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہلِ اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادتِ با سعادت کے مہینے میں محافلِ میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب بھی ماه ِمیلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہِ میلادُ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قریب آتا ہے خصوصی اہتمام شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماہِ مقدّس کی برکات اللہ پاک کے بہت بڑے فضلِ عظیم کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ بات تجربے سے ثابت ہے جیسا کہ امام شمسُ الدّین بن جَزْری رحمۃُ اللہِ علیہ نے بیان کیا ہے کہ ماہِ میلاد کے اس سال مکمل طور پر حفظ و امان اور سلامتی رہتی ہے اور بہت جلد تمنائیں پوری ہونے کی بشارت ملتی ہے۔ [13]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، نائب مدیر ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
[1] مواھب لدنیہ ، 1 / 44
[2] سیر اعلام النبلاء ، 16 / 274
[3] المورد الروی فی مولد النبی ، ص31
[4] الطالع السعید ، ص478 ، الحاوی للفتاویٰ ، 2 / 230
[5] الجامع اللطیف ، ص285ملخصاً
[6] المورد الروی فی مولد النبوی ، ص30
[7] سابقہ حوالہ ، ص31
[8] سابقہ حوالہ ، ص34
[9] سیرتِ حلبیہ ، 1 / 123
[10] المورد الروی فی مولد النبوی ، ص 34
[11] الحاوی للفتاویٰ ، 1 / 221
[12] سابقہ حوالہ ، 1 / 229
[13] سبل الهدى والرشاد ، 1 / 392 مفهوماً۔
Comments