سفر نامہ
مصر میں آخری دن (ساتویں اور آخری قسط)
* مولانا عبد الحبیب عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021
8مارچ2020ء کو ہم نے مصری عالمِ دین شیخ خالد ثابت سے ملاقات کی تھی جس کی تفصیل مدنی سفر نامہ کی گزشتہ قسط میں پیش کی گئی تھی۔ کراچی کے ایک بڑے عالمِ دین مفتی محمد جان نعیمی صاحب کے3 صاحبزادے ان دنوں جامعۃُ الاَزہر میں زیرِ تعلیم تھے ، ان کی پُر زور دعوت پر ہم شیخ خالد ثابت کے یہاں سے فارغ ہو کر ان حضرات کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ یہاں سندھ کی ایک خانقاہ سے تعلق رکھنے والے عالمِ دین بھی موجود تھے۔ ان حضرات نے ہماری بہت عزت افزائی کی اور ہمیں کئی طرح کے مزیدار کھانے کھلائے۔ یہاں مصر میں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے مواقع اور جامعۃُ الاَزہر کے تعلیمی معیار وغیرہ سے متعلق گفتگو ہوئی۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد رات تقریباً12بجے ہم اپنی رہائش گاہ پہنچے۔
آہ! سفرِ مدینہ :
9مارچ2020ء ہمارے اس تقریباً 6 روزہ سفر کا آخری دن تھا اور آج ہم نے مصر سے مدینۂ منوّرہ کا مبارک سفر شروع کرنا تھا۔ صبح سویرے ہمیں یہ دل خراش خبر ملی کہ عرب شریف میں دنیا کے مزید 9ممالک کے لئے سفری پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جن میں مصر بھی شامل ہے۔ اس خبر سے ہمیں کافی دھچکا لگا۔
ہم نے جس ایئر لائن کے ذریعے سفرِ مدینہ کرنا تھا ان کے دفتر جاکر معلومات کیں تو وہاں کے عملے نے ہمارے ساتھ کافی تعاون کیا۔ ہمارے ساتھ موجود UKکے مبلغِ دعوتِ اسلامی شہباز مدنی کے لئے UK ، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے تاجر اسلامی بھائیوں کے لئے اسلام آباد جبکہ ہم 3اسلامی بھائیوں کے لئے کراچی کے ٹکٹ امارات ایئر لائن میں بک کروادیئے۔
دریائے نیل :
اس کے بعد ہم دریائے نیل گئے۔ یہ وہ تاریخی دریا ہے جس كی طرف اشارہ قراٰنی آیات میں موجود ہے جبکہ احادیثِ مبارکہ میں بھی اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : سَيْحَانُ وَجَيْحَانُ وَالْفُرَاتُ وَالنِّيلُ كُلٌّ مِّنْ اَنْهَارِ الْجَنَّةِ یعنی سَيْحَان ، جَيْحَان ، فُرَات اور نِیل یہ سب جنتی نہروں میں سے ہیں۔ [1]
مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : ان چاروں نہروں کا جنّت سے ہونا ، اس کی بہت توجیہیں کی گئیں ہیں مگر قوی یہ ہے کہ کوئی تاویل نہ کی جائے ، اسے اپنے ظاہر پر رکھا جائے کہ جنّت سے ان کا پانی پہاڑوں میں بھیجا گیا اور پہاڑوں سے ان میدانوں میں جاری کیا گیا۔ چنانچہ یہ پانی بہت شیریں (میٹھے) ہیں ، ہاضِم ہیں ، ان نہروں پر حضراتِ انبیاء کرام بزرگانِ دین بہت ہی کثرت سے تشریف فرما ہوئے ہیں۔ [2]
دریائے نیل کا اعزاز :
حضرت سیّدُنا یوسف علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی وفات کے بعد اس بات میں سخت اختلاف پیدا ہو گیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے۔ مصر کے ہر محلے والے حصولِ برکت کے لئے آپ کو اپنے ہی محلے میں دفن کرنے پر اصرار کرنے لگے۔ آخر اس بات پر سب کا اتفاق ہو گیا کہ آپ علیہ السّلام کو دریائے نیل کے بیچ میں دفن کر دیا جائے تاکہ دریا کا پانی آپ کے مزار شریف کو چھوتا ہوا گزرے اور تمام مصر والے آپ کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہوتے رہیں۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام کو سنگِ مرمر کے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے بیچ میں دفن کیا گیا۔ اس کے 400 سال کے بعد حضرت سیّدُنا موسیٰ کلیمُ اللہ علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اللہ پاک کے حکم پر آپ علیہ السّلام کے تابوت شریف کو دریا سے نکال کر آپ کے آباء و اجداد کے مزارات کے پاس ملکِ شام میں دفن فرمایا۔ [3]
سب سے اچھا قصّہ :
ہم نے ایک کشتی میں سوار ہوکر دریائے نیل میں کچھ سفر کیا اور اس دوران میں نے مدنی چینل کے لئے حضرت سیّدُنا یوسف علیہ السّلام کا واقعہ ریکارڈ کروایا۔ اس واقعے کو قراٰنِ کریم میں اَحْسَنُ الْقَصَص یعنی سب سے اچھا واقعہ کہا گیا ہے۔ پیارے اسلامی بھائیو! میرا آپ کو مدنی مشورہ ہے کہ تفسیر صراطُ الجنان جلد نمبر 4 میں سورۂ یوسف کے تحت حضرت سیّدُنا یوسف علیہ السّلام کا واقعہ ضرور پڑھیں ، اِنْ شآءَ اللہ بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
جب ہم دریائے نیل کی سیر سے فار غ ہوئے تو ہمارے ساتھ موجود شہباز مدنی بھائی U.K واپسی کیلئے روانہ ہوگئے۔
عبرت کا نشان :
آج کے دن ہم اس میوزیم کے باہر بھی گئے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے اندر فرعون کی حَنُوط شدہ لاش رکھی گئی ہے۔ دریائے نیل میں غرق ہونے کے بعد اُسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا تاکہ لوگ دیکھیں کہ اللہ پاک کی نافرمانی کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : )فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةًؕ-(ترجمۂ کنزالعرفان : آج ہم تیری لاش کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بن جائے۔ [4] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
مزارِ سیدہ زینب پر حاضری :
نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد ہم شہزادیِ علی و فاطمہ ، ہمشیرۂ حسن و حسین ، آلِ رسول حضرت سیّدہ زینب رضی اللہُ عنہا کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہوئے۔ اگرچہ شام کے شہر دمشق میں بھی آپ کی طرف منسوب مزار موجود ہے اور وہاں بھی میری حاضری ہوئی ہے لیکن جمہور عُلَما کا موقف اور دلائل کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ سیّدہ پاک کا مزار شریف مصر کے شہر قاہرہ میں موجود ہے۔ میدانِ کربلا میں اہلِ بیت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کے موقع پر اس مبارک گھرانے کی خواتین اور بالخصوص سیّدہ زینب رضی اللہُ عنہا نے جس مثالی و تاریخی صبر و رضا اور جرأت مندی و بہادری کا ثبوت دیا وہ تمام مسلمانوں بالخصوص اسلامی بہنوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ [5]
مصر سے واپسی :
مصر کا 6روزہ سفر مکمل کرنے کے بعد رات تقریباً پونے 1بجے کی فلائٹ سے ہم پہلے متحدہ عرب امارات (U.A.E) اور پھر وہاں سے کراچی پہنچے۔ اس سفر کے دوران وقتاً فوقتاً شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے رابطہ رہا ، میں کارکردگی پیش کرتا رہا اور آپ اپنے مخصوص انداز میں حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔
اللہ کریم ہمارے اس سفر اور کاوشوں کو قبول فرمائے ، خطاؤں سے درگزر فرمائے اور جن اسلامی بھائیوں نے ہمارا ساتھ دیا انہیں دونوں جہاں کی بھلائیاں عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکنِ شوریٰ ونگرانِ مجلس مدنی چینل
[1] مسلم ، ص1166 ، حدیث : 7161
[2] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 490
[3] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 599 ، عجائب القرآن مع غرائب القرآن ، ص145
[4] پ11 ، یونس : 92
[5] حضرت سیّدہ زینب رضی اللہُ عنہا کے حالاتِ زندگی جاننے کے لئے ماہنامہ فیضانِ مدینہ برائے ذوالقعدہ 1439ھ صفحہ 36 کا مطالعہ فرمائیے۔
Comments