تفسیرِ قراٰنِ کریم

ظاہر و باطن کو روشن کردینے والے سورج

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : (یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶))ترجَمۂ کنزُالعرفان : اے نبی! بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔ (پ22 ، الاحزاب : 45 ، 46)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : حضور سرورِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مقام ومرتبہ کا حقیقی علم ، فضل و کرم فرمانے والے خدائے پاک کے سِوا کسی کو نہیں۔ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے خود فرمایا : اے ابو بکر! اُس ذات کی قسم ، جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میری حقیقت کو میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (مطالع المسرات ، ص129)

ہمارے آقا و مولا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے کمالات کے متعلق امام اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  یوں کلام فرماتے ہیں۔

فرش والے تِری شوکت کا علُوّ کیا جانیں

خُسْرَوا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

تمام مخلوق اپنے تمام اوقات و اسباب استعمال کر کے سیدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شان بیان کرنا چاہے تو ممکن نہیں ، کہ اُن کی شان ، خود ان کے رب نے بلند فرمائی ، چنانچہ فرمایا : (وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴)) ترجمہ : اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کر دیا۔ (پ30 ، الم نشرح : 4)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور ہر آن ان رِفعتوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے ، جیسا کہ فرمایا : (وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴) ) ترجمہ : اور بے شک تمہارے لیے ہر پچھلی (بعد میں آنے والی) گھڑی پہلی سے بہتر ہے۔ (پ30 ، الضحیٰ : 4)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حضور سیدِ دوعالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عظمتوں میں سے پانچ صفات شروع میں مذکور آیت میں بیان کی گئی ہیں۔ خدائے ذوالجلال نے فرمایا : اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔ (پ22 ، الاحزاب : 45 ، 46)

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں خدا تعالیٰ نے ہمارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی پانچ صفات بیان فرمائیں۔

پہلی صفت : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  “ شاہِد “ ہیں۔ “ شاہِد “ کا ایک معنی “ حاضر و ناظر “ ہے اور دوسرا معنی “ گواہ “ ہے۔ مفرداتِ راغِب میں ہے : اَلشُّھُوْدُ وَالشَّھَادَۃُ اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں “ حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے ، بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ۔ “ (المفردات ، 1 / 352)

اگر اس کا معنی “ گواہ “ کیا جائے تو بھی یہاں تفصیلی معنیٰ حاضر و ناظر ہی بنے گا ، کیونکہ گواہ کو بھی اِسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مُشاہَدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اُس کو بیان کرتا ہے اور چونکہ سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رسالت “ عامہ “ ہے ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ اۙ (۱))ترجَمۂ کنزُالعرفان : وہ (اللہ) بڑی برکت والا ہے ، جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو۔ (پ18 ، الفرقان : 1)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اس لئے حضور پُرنور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شہادت بھی “ عامہ “ ہے اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہدیعنی مشاہدہ فرمانے والے ہیں۔

اہلِ سنّت کا یہ عقیدہ ہے کہ سیّد المرسَلین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اللہ تعالیٰ کی عطا سے حاضر و ناظر ہیں۔ “ حاضر “ کے لغوی معنی ہیں “ سامنے موجود ہونا “ یعنی غائب نہ ہونا اور “ ناظر “ کے کئی معنی ہیں جن میں ایک واضح معنیٰ ہے ، “ دیکھنے والا “ ۔ “ حاضر و ناظر کے شرعی “ معنی یہ ہیں کہ قُدسی قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالَم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالَم کی سیر کرے اور سینکڑوں میل دور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے۔ یہ رفتار خواہ روحانی ہو یا جسمِ مثالی کے ساتھ ہو یا اُسی جسم سے ہو جو قبر میں مدفون ہے یا کسی جگہ موجود ہے۔ اس عقیدہ کی دلیل اوپر موجود آیت ہے۔

عقیدے کی دلیل حدیث سے : رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےفرمایا : اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میرے سامنے کردی ہے ، لہٰذا میں ساری دنیا کو اور جو کچھ دنیا میں قیامت تک ہونے والا ہے ، سب کا سب یوں دیکھ رہا ہوں جیسے اس ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، 13 / 319) مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو لپیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا اور قریب ہے کہ میری امت کی سلطنت ان تمام مقامات پر پہنچے اور مجھے دو خزانے سرخ و سفید دیئے گئے۔ (مسلم ، 4 / 2215) ایک اور مقام پر فرمایا : میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا ، اللہ پاک نے مجھ سے پوچھا کہ مقرب فرشتے کس چیز میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے عرض کی اے مولا! تو ہی سب سے بڑھ کر جانتا ہے ، تب اللہ پاک نے اپنے شایانِ شان اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا ، جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی ، تو جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب میں نے جان لیا۔ (سنن الدارمی ، 2 / 1366)

شاہ عبد الحق محد ث دہلوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : (اہلِ حق میں سے) اس مسئلہ میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ رسول کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنی حقیقی زندگی کے ساتھ دائم اور باقی ہیں اور امت کے احوال پر حاضر وناظر ہیں اور حقیقت کے طلب گاروں کو اور اُن حضرات کو جو آپ کی طرف متوجہ ہیں ، ان کو فیض بھی پہنچاتے ہیں اور ان کی تربیت بھی فرماتے ہیں اور اس میں نہ تو مجاز کا شائبہ ہے نہ تاویل کا بلکہ تاویل کا وہم بھی نہیں۔ (مکتوباتِ شیخ مع اخبار الاخیار ، الرسالۃ الثامنۃ ، ص155)

شاہدبمعنیٰ گواہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے چنانچہ قرآنِ مجید میں فرمایا : ( وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-) ترجمہ : اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ہوں۔ (پ2 ، البقرہ : 143)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حضرت ابو سعید خدری  رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے فرمایا : قیامت کے دن ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ ایک شخص ہوگا ، اور ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ دو شخص ہوں گے ، اور ایک نبی آئے گا اس کے ساتھ زیادہ لوگ ہوں گے ، اس نبی  علیہ السّلام  سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اپنی قوم کو تبلیغ کی تھی؟ وہ جواب دے گا : جی ہاں! پھر اس کی قوم کو بلایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا : کیا انہوں نے تم کو تبلیغ کی تھی؟ قوم کہے گی : نہیں! پھر اس نبی سے کہا جائے گا : تمہارے حق میں کون گواہی دے گا؟ وہ کہیں گے : محمد  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی امت ، پھر حضرت محمد  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی امت کو بلایا جائے گا اور کہا جائے گا : کیا انہوں نے تبلیغ کی تھی؟ وہ کہیں گے ہاں! پھر پوچھا جائے گا : تمہیں اس کا کیسے علم ہوا؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ہمیں یہ خبر دی تھی کہ (سب) رسولوں نے تبلیغ کی ہے۔ (سنن کبریٰ للنسائی ، 6 / 292)

دوسری صِفَت : رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  “ مُبَشِّر “ ہیں ، یعنی آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اہلِ ایمان کو جنت کی خوش خبری دینے والے ہیں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک مجلس میں دس صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کو اجتماعاً اور اِن کے علاوہ پچاس کے قریب صحابہ کو انفراداً دنیا میں ہی جنتی ہونے کی نوید سنائی ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہی کی زبانِ مقدَّس نے شیخین کریمین  رضی اللہُ عنہما  کو جنتی بزرگوں ، حسنین کریمین  رضی اللہُ عنہما  کو جنتی جوانوں اور سیدہ ِکائنات  رضی اللہُ عنہا  کو جنتی عورتوں کی سردار ہونے کا مژدہ سنایا۔ اس کے علاوہ ایمان ، اعمالِ صالحہ ، اخلاقِ حمیدہ کے حامل افراد کو جنت کی بشارت عطا کی بلکہ تمام امت کوعام بشارت سے نوازا۔ مشہور مفسِّر علامہ اسماعیل حقی  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے بڑی ایمان افروز بات لکھی کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اہلِ طاعت کو جنت اور اہلِ محبت کو دیدارِ الٰہی کی بشارت دیتے ہیں۔ اسی “ مُبَشِّرًا “ والی صِفَت سے فیض پانے کا حکم نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یوں دیا : “ لوگوں کو بشارتیں دینا ، اُن سے باعثِ نفرت اور تشویش کُن باتیں مت کرنا اور لوگوں کی آسانیاں ملحوظ رکھنا ، انہیں سختی میں نہ ڈالنا۔ “ (المعجم الکبیر للطبرانی ، 11 / 312)

تیسری صِفَت : رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  “ نذیر “ ہیں ، یعنی لوگوں کو جہنَّم کے عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں۔ اِنسانی فطرت ایسی ہے کہ اسے اِصلاح کےلئے جہاں ترغیب کی ضرورت ہے ، وہیں ترہیب اور اِنذار کی حاجت ہے۔ حضور پُرنور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے کافروں ، فاسقوں ، فاجروں کو جہنم کے عذاب کے متعلق بھی بہت وضاحت سے متنبہ فرمایا۔ اس صفت کی مثال ایک حدیث میں آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یوں بیان فرمائی : میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی اور پتنگے ، پروانے اُس میں گرنے لگے اور یہ شخص اُنہیں اس سے ہٹا رہا ہے۔ (اِسی طرح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر(جہنم کی) آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں۔ (مسلم ، 4 / 1790)

چوتھی صِفَت : رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  “ داعی الی اللہ “ ہیں ، یعنی لوگوں کو خدا کی طرف بلانے والے ہیں۔ کافروں کو ایمان ، فاسقوں کو تقویٰ ، غافلوں کو یادِ الٰہی ، کاہلوں کو عمل اور محروموں کو قرب کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور ظاہر و باطن سے کامل غلامی میں آنے والوں کو بارگاہِ قدس میں پہنچانے والے ہیں۔ “ دعوت الی اللہ “ یعنی لوگوں کو خدا کی طرف بلانا ، تمام انبیاء کی بِعثَت کا سب سے بنیادی مقصد رہا ہے لیکن ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس راہ میں سب سے زیادہ مشقتیں اٹھائیں ، چنانچہ سیدالمرسلین ، افضل المبلغین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  خود فرماتے ہیں : مجھے اللہ کی راہ میں جیسے خوف زدہ کیا گیا کسی اورکو ایسے نہ کیا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے جیسی تکلیفیں پہنچائی گئی ، ایسی کسی دوسرے کو نہیں پہنچائی گئیں۔ (ترمذی ، 2 / 525)

پانچویں صِفَت : رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  “ سراج منیر “ ہیں ، یعنی چمکانے والے ، روشنیاں پھیلانے والے آفتاب ہیں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کفر کی ظلمتوں اور شرک کی تاریکیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہی وہ آفتابِ رسالت ہیں جن سے حضرات ابوبکر  رضی اللہُ عنہ  نے صداقت ، عمر فاروق  رضی اللہُ عنہ  نے عدالت ، عثمان غنی  رضی اللہُ عنہ  نے حیا و سخاوت اور علی المرتضی  رضی اللہُ عنہ  نے عِلْم و عبادت کا نور پایا ، اِسی سورج کی تجلیات سے حضرات یاسر ، عمّار ، سُمَیّہ ، خُبَیب ، صُہَیب اور بلال حبشی  رضی اللہ عنہم  نے استقامت پائی ، اسی آفتاب کی تابانی و توانائی نے آسمانِ ہدایت کے ستارے اور وہ بلند حوصلہ ، عالی ہمت ، جفاکش ، سراپا اِخلاص اور مرد مجاہد پیدا فرمائے جن پر یہ اشعار صادق آتے ہیں :

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے

جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی

دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

ہزاروں آفتابوں سے بڑھ کر اِس آفتابِ نبوت کی روشنی ہے ، بلکہ سب نے روشنی یہیں سے پائی۔ اقبال نے لکھا ہے :

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بُو                  آں کہ از خاکش بروید آرزو

یا زنورِ مصطفیٰ اُو را بہا است یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ است

ترجمہ : جہاں کہیں بھی رنگ و بو کا جہان آباد ہے ، یا قابل آرزو کوئی شئے کسی خاک سے جنم لیتی ہے ، وہاں زندگی کی چمک دمک یا تو نورِ مصطفیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے فیض پارہی ہے ، یا ابھی وہ مصطفیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی تلاش میں سرگرم عمل ہے۔

اور نعت و مَدْح کی زبان میں یوں کہہ سکتے ہیں :

سرکار یہ نام تمہارا ، سب ناموں سے ہے پیارا

اس نام سے چمکا سورج ، اور چمکا چاند ستارہ

ہوا ہر سو خوب اجالا ، ہوا روشن عالم سارا

میرا نام کرے گا روشن ، دو جگ میں نام تمہارا

دعائے عاجزانہ : اللہ کریم اپنے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سچی محبت کا اعلیٰ درجہ ہمیں عطا فرمائے اور آفتابِ نبوت کی ضیا پاشیوں سے ہمیں مستفیض فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنّت فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code