تعلقات خراب ہونے کے ڈر سے اصلاح نہ کرنا کیسا ؟
از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ
حضور مفتیِ اعظم ہند ، شہزادۂ اعلیٰ حضرت ، مولانا مصطفیٰ رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ ایک جگہ مَدْعُو ( یعنی دعوت پر بلائے گئے ) تھے ، وہاں گھر میں آپ رحمۃُ اللہ علیہ کے قریب ہی ایک ٹُونٹی لگی ہوئی تھی جس سے پانی ٹپک رہا تھا ، آپ نے میزبان کو بلایا اور اس کو اسراف کے نقصانات سمجھاتے ہوئے فرمایاکہ اس ٹونٹی کو فوراً درست کراؤکیونکہ جب تک یہ بہتی رہے گی تم کو گناہ ہوتا رہے گا ، اس نے عرض کیا حضور! ابھی دُرست کرلیتے ہیں۔مگر کافی دیر تک اس نے درست نہ کیا ، اس پر آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے اس کو بلاکر فرمایا : ”ہم جاتے ہیں کیونکہ آپ یہ ٹونٹی درست نہیں کرواتے ، اور ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے اللہ پاک کی یہ نعمت ضائع ہوتے ہوئے دیکھنا گوارا نہیں۔“ میزبان بے حد نادِم ہوااور بڑی منّتیں کرکے آپ کو راضی کیا ، اور ٹُونٹی بھی فوراً درست کرالی۔ ( جہان مفتی اعظم ہند ، ص256 ) واہ کیا بات ہے حضور مفتیِ اعظم ہند رحمۃُ اللہ علیہ کے جذبۂ اصلاح کی! اے عاشقانِ رسول! نیکی کا حکم دینے کی کئی صورتیں ہیں ، بہارِ شریعت میں لکھا ہے : ( 1 ) اگر غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان سے کہے گا تو وہ اس کی بات مان لیں گے اور بری بات سے باز آجائیں گے ، تو اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف ( یعنی نیکی کا حکم دینا ) واجب ہے اس کو ( یعنی نیکی کا حکم دینے والے کو اس صورت میں ) باز رہنا ( یعنی سمجھانے سے رُکنا ) جائز نہیں اور ( 2 ) اگر گمان غالب یہ ہے کہ وہ طرح طرح کی تہمت باندھیں گے اور گالیاں دیں گے تو ترک کرنا ( یعنی نیکی کا حکم نہ دینا ) افضل ہے اور ( 3 ) اگر یہ معلوم ہے کہ وہ اسے ماریں گے اور یہ صبر نہ کرسکے گا یا اس کی وجہ سے فتنہ و فساد پیدا ہوگا آپس میں لڑائی ٹھن جائے گی جب بھی چھوڑنا افضل ہے اور ( 4 ) اگر معلوم ہو کہ وہ اگر اسے ماریں گے تو صبر کرلے گا تو ان لوگوں کو برے کام سے منع کرے اور یہ شخص مجاہد ہے اور ( 5 ) اگر معلوم ہے کہ وہ مانیں گے نہیں مگر نہ ماریں گے اورنہ گالیاں دیں گے تو اسے اختیار ہے اور افضل یہ ہے کہ اَمر کرے ( یعنی نیکی کا حکم دے ) ۔ ( بہار شریعت ، 3 / 615 ) بہر حال ہر صورت میں زبردستی کسی کی اصلاح کرنا فرض یا واجب نہیں ہے ، ہاں! دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ پاک بُرائی کرنے والے کو ہدایت نصیب کرے۔ یاد رکھئے!اصلاح کرنے والے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ اسے سامنے والے کی نفسیات کو پرکھنے کی صلاحیت ہو کہ کس سے کس طرح بات کی جائے ؟ اللہ پاک ہمیں اپنی اور دوسروں کی اصلاح کا جذبہ نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( نوٹ : یہ مضمون20رمضان شریف1441ھ مطابق 14مئی 2020ء کو نمازِ عصر کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت دامت برکاتہم العالیہ سے نوک پلک درست کرواکے پیش کیا گیا ہے )
Comments