اسلام اور عورت
بھائیوں کی زندگی میں بہنوں کا کردار
*اُمِّ میلاد عطّاریہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2024ء
اللہ پاک کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں میں سے ایک نعمت خونی رشتے بھی ہیں۔ خونی رشتوں کا لِحاظ نہایت اہم ہے، اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں بھی جگہ بہ جگہ اس کا تذکرہ فرمایا اور خونی رشتوں کا احترام کرنے کا حکم دیا اورصلۂ رحمی کرنے والوں کی تحسین کی گئی ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
)وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِؕ(۲۱)(
ترجَمۂ کنز العرفان : اور وہ جو اسے جوڑتے ہیں جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب سے خوفزدہ ہیں۔ ([1])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اسلام نے خونی رشتوں کو مضبوط رکھنے کے ایسے احکام بیان فرمائے ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے نہ صرف خاندان مضبوط رہتاہے بلکہ معاشرہ بھی مضبوط ہوجاتا ہے کیونکہ خاندان ہی معاشرے کا بنیادی جز ہے، جس کی مضبوطی معاشرے کی مضبوطی ہے، ان خونی رشتوں میں ماں باپ کے بعد مضبوط، طاقت ور اور طویل رشتہ ’’بھائی بہن ‘‘ کا ہے۔
بھائی بہن ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، اور ہنستے بولتے ہیں ان کی آپس کی یہ محبت ایک دوسرے کو طاقت فراہم کرتی ہے۔ اسلام چونکہ نہ صرف اکمل مذہب بلکہ دینِ فطرت بھی ہے لہٰذا یہ پیارا مذہب ان تعلقات کو اچھے طریقے سے نبھانے اور ان کی پاسداری کی رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں ہے : جس كى تىن بىٹىاں ىا تىن بہنىں ہوں ىا دو بىٹىاں ىا دو بہنىں ہوں اور اس نے ان كے ساتھ اچھا برتاؤ كىا اور ان كے بارے مىں اللہ پاک سے ڈرتا رہا تو اس کےلئے جنّت ہے۔([2])
جہاں بھائیوں کو بہنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ہے وہیں بہنوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ بھائیوں کےساتھ اچھا سلوک کریں۔ بھائی بہنیں ایک دوسرے کے دکھ درد کا مداوا ہوتےہیں، مشکلات میں ایک دوسرے کا سہارا بنتےہیں، لیکن بسا اوقات کچھ وجوہات کی بنا پر بہن بھائی ایک دوسرے کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔
بعض بہنوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ بھابھیاں ان کی خدمت کریں، ان کے حصے کے بھی کام کریں۔ بھابھیاں گھر آجائیں تو ہر طرح کے کام انہی کے سپرد ہوں، جبکہ شرعی طور پر ایسا نہیں کہ بھابھی نند کی خدمت کرے۔ بھابھی خاندان کا حصہ ہوتی ہے اور نہ صرف بھائی کی شریک حیات ہونے کی حیثیت سے بلکہ ایک مسلمان اور اللہ کی بندی ہونے کی حیثیت سے بھی نَنْدوں کے لئے قابلِ احترام ہے۔
شادی شدہ بہن اگر میکے جائے تو ہرگز یہ ذہن نہ بنائے کہ بھابھی اس کی خدمت کرے، اس کےبچوں کو سنبھالے، اس کے فرمائشی کھانے بنا کر دے، یقیناًیہ بالکل نامناسب انداز ہے۔ بلکہ بہن کو چاہئے کہ جب وہ میکے جائے تو موقع کی مناسبت سے کم وقت گزارے اور میکے میں بھی اپنے کام خود کرے بلکہ بھابھی کا بھی ساتھ دے۔
بعض بہنیں بھائی سے اس کی شریکِ حیات کے بارے میں منفی (Negative)باتیں کرتی ہیں جیسا کہ تمہاری بیوی گھر صاف نہیں کرتی، میں آتی ہوں تو لفٹ نہیں کرواتی، اَمّی کا خیال نہیں کرتی۔ اس طرح بھائی کے دل میں اپنی زوجہ کے خلاف باتیں آجاتی ہیں جس سے اس کا انداز اپنی بیوی سے بدل جاتا ہے اور گھر کے ماحول میں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
اسی طرح بعض بہنیں اپنی بہنوں کو ان کے شوہروں اور سسرال کے خلاف بھی بھڑکاتی ہیں۔ یہ انتہائی برا عمل ہے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظّم ہے: ”جو کسی شخص کی بیوی کو اس کے خلاف بھڑکائے وہ ہم میں سے نہیں۔ “ ([3])
اگر یہ باتیں بے بنیاد ہوں تو ایسی بہنوں کو تہمت کے گناہ کے عذاب میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنّم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی بات (کے گناہ) سے اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پا کر نہ نکل جائے۔ ([4])
اسلامی احکامات کے لحاظ سے بہنوں کا یہ درست انداز نہیں ہے،انہیں اس سے بچنا چاہئے۔
بعض جگہ بہنوں کا یہ ذہن بھی بنتا جارہا ہے کہ بھائیوں سے کچھ نہ کچھ ملتا ہی رہے گا، کبھی خوشی کے موقع پر رسم کے نام پر تو کبھی تہوار پر رواج کی صورت میں، کبھی یہ ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ جب بھائی کے گھر بچہ پیدا ہو تو بہن کو کوئی بھاری گفٹ، رقم یا سونا وغیرہ دیا جائے، اس طرح کے کئی معاملات اس طرح کی بہنیں کرتی نظر آتی ہیں حالانکہ سوال کرنے سے بچنا چاہئے۔ آج کل کے مہنگائی کے دور میں خواہی نخواہی بھائی کی جیب پر اس طرح کا بوجھ ڈالنا ہرگز مناسب نہیں، اپنے بھائیوں کی خوشیاں دیکھ کر ان کی نعمتوں میں اضافے کے لئے اللہ پاک سے دعا کرنی چاہئے۔
ہاں اگر بھائی صاحبِ حیثیت ہے، خود اپنی خوشی سے دیتا ہے جیسا کہ عموماً گھروں میں معمولی تحفے تحائف دینے کا تو رجحان ہوتا ہی ہے تو اس میں شرعی لحاظ سے کچھ حرج نہیں ہے۔
ایک معاملہ جائداد کی تقسیم کے معاملے میں دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ بہن بھائی جو ایک چھت کے نیچے ایک ہی ماں باپ کے زیرِ سایہ پلے بڑھے ہوتے ہیں اور دنیا کی ذلیل دولت کے پیچھے ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوجاتے ہیں۔ وراثت میں اگرچہ بہنوں کا حصہ شرعاً مقرر ہے لیکن بعض بہنیں شرعی تقسیم کی بجائے بھائیوں کے برابر برابر حصوں کا مطالبہ کرتی ہیں جو پھر بہن بھائیوں میں طویل نزاع، خونی رشتوں کے ٹوٹنے اور کئی طرح کے اختلافات کا باعث بنتاہے۔ کہیں کہیں اس بات پر خاندان کی عزت کورٹ کی نذر ہوجاتی ہے۔
اسلام میں وراثت کے واضح اورمکمل احکام موجود ہیں۔ شریعت کی رو سے جس کا جو جائز حصہ بنتا ہے اَحْسَن انداز میں اسے قبول کرلیا جائے اس سلسلے میں شریعت کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کئی مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔
بہر حال ایک خاندان کی خوشحالی میں ایک بہن کئی لحاظ سے اپنا کردار ادا کر سکتی ہے لہٰذا کوشش کرنی چاہئے کہ خوشگوار اور اچھا ماحول بنا کر رکھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن
Comments