حضرت سیدنا شعیب  علیہ السّلام (قسط:02)

سیرت انبیائےکرام

حضرت سیدناشعیب علیہ السلام (قسط:02)

*مولانا ابو عبید عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2024ء

پہلی قسط میں حضرت سیّدنا شعیب علیہ السّلام کا  کچھ مبارک تذکرہ  گزرا، آئیے ! اب ان کے حالاتِ زندگی کچھ تفصیل سے پڑھئے:

بچپن: آپ علیہ السلام کے والد صاحب کا شمار مَدْیَن کے عبادت گزاروں اور عُلما میں ہوتا تھا، ان کی شادی قومِ عَمَالقہ کی ایک نیک خاتون سے ہوئی جن سے حضرت شعیب کی پیدائش ہوئی، حضرت شعیب علیہ السّلام نہایت حسین وجمیل تھے، اللہ کریم نے آپ کو  بہت  فہم وفراست اور علم کی دولت سے مالامال فرمایا تھا،آپ بہت کم گفتگو کرتے تھے جبکہ غور و فکرمیں زیادہ مصروف رہتےتھے۔

والد صاحب برکت کی دعا کرتے:والد صاحب جب اپنے کمزور بدن پر غور کرتےتو اللہ کریم سے یوں دعا کرتے : اے اللہ ! تو نے سرزمینِ مَدْیَن میں قبائل اور چھوٹی جماعتوں کی تعداد بڑھائی ہے، تو میری اس چھوٹی جماعت (یعنی میرے اس بیٹے ) میں برکت عطا فرما، پھر ایک رات خواب میں دیکھا کہ (کوئی کہہ رہا تھا ) اللہ نے تمہاری چھوٹی جماعت (یعنی بیٹے شعیب ) میں برکت رکھ دی ہے اور اسے اہلِ مدین کا نبی بنایا ہے۔

شعیب نام کا معنی:عربی میں چھوٹی جماعت کو ”شعیب“ کہتے ہیں اسی وجہ سے آپ کو ”شعیب“ کہا جانے لگا۔ ([1])

عبادت و ریاضت:والد صاحب کے انتقال کے بعد آپ ان کے قائم مقام ہوئے اور عبادت و ریاضت میں مصروف ہوگئے اور پھر اہلِ زمانہ پر زہد و تقویٰ میں فوقیت پاگئے۔([2])

بکریاں چراتے تھے:آپ کو اپنے والد صاحب کی طرف سے وراثت میں بکریوں کا ریوڑ ملا تھا جن سے آپ کو خوب منافع اور فوائد ملتے تھے([3])آپ اپنی بکریاں خود چَرایا کرتے تھے([4])

شہر مدین والے:اہلِ مدین کا پیشہ تجارت تھا، یہ لوگ گندم اور جَو اور دیگر اجناس کی تجارت کیا کرتےتھے۔([5]) ان کے پاس دو طرح کے ترازو اور بٹے ہوتے تھے اپنے لئے کچھ خریدتے تو وہ ایسے ترازو اور بٹے استعمال کرتے جو پورے ہوتے اور جب کوئی چیز بیچتے تو ناقص ترازو اور بٹے استعمال کرتے اس طرح یہ لوگوں کو دھوکا دیتے تھے، حضرت شعیب علیہ السَّلام ان کے ہی درمیان پل بڑھ کر جوان ہوئے لیکن ان بےکار چیزوں سے دور رہتے تھے۔([6])

منصبِ رسالت: ایک مرتبہ آپ اپنے گھر کے دروازے کے پاس ذکرِ الٰہی میں مشغول تھےکہ ایک مسافر آدمی آیا اور کہنے لگا:یہ قوم لوگوں پر ظلم کرتی ہے میں نے ان سے 100 دینار کا سامان خریدا لیکن انہوں نے 100 دینار بھی لئے اور اوپر مزید رقم بھی لی پھر میں نے بعد میں اس سامان کا وزن کیا تو وہ 80دینار کا سامان تھا، آپ نے اس شخص سے فرمایا: شاید ان سے غلطی ہوگئی ہو دوبارہ ان کے پاس چلے جاؤ، اس نے کہا: میں ان کے پاس گیا تھا انہوں نے مجھے مارا اور گالیاں بھی دیں اور کہنے لگے: ہمارے شہر میں ہمارا یہی طریقہ ہے، پھر وہ آدمی حضرت شعیب علیہ السّلام سے گزارش کرنے لگا کہ آپ ان کے خلاف میرا ساتھ دیں، حضرت شعیب اسے ساتھ لے کر بازار پہنچے اور لوگوں سے پوچھا تو وہ کہنے لگے: ہمارے شہر میں ہمارے باپ دادا کا یہی طریقہ رہا ہے، آپ نے فرمایا: یہ باپ دادا کا طریقہ نہیں ہے،پھر آپ نے قوم کو ا س حرکت پر ملامت کی لیکن انہوں نے اس شخص کا بقیہ سامان نہ دیا اور اس آدمی کو اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہوگیا، یہ سب دیکھ کر حضرت شعیب واپس اپنے گھر لوٹ آئے۔([7])اس وقت حضرت جبریل آئے اور خبر دی کہ اللہ کریم نے آپ کو اہلِ مدین اور اَیْکَہ  والوں کی طرف رسول بناکر بھیجا ہے اور حکم دیا ہےکہ انہیں اللہ کی عبادت اور فرماں برداری کی طرف بلائیں اور لوگوں کی چیزوں میں ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کریں۔([8])

قوم کی نافرمانی:حضرت شعیب علیہ السَّلام انہیں ناپ تول میں کمی سے منع کرتے اور اللہ پر ایمان لانےکے بارے میں ارشاد فرماتے تو وہ لوگ ایمان نہ لاتے اور راستے میں بیٹھ جاتے اور آنے جانے والوں کو کہتے تھے: شعیب (مَعاذَ اللہ) جھوٹے ہیں وہ تم کو تمہارے دین سے دور کردیں گے۔([9])

قوم کو بار بار سمجھاتے رہے:جب آپ علیہ السّلام نے انہیں یوں سمجھایا : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔([10]) تو قوم کے متکبر سردار بولے: اے شعیب! قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں آجاؤ۔([11]) حضرت شعیب علیہ السَّلام نے اپنی قوم کا جواب سن کر ان سے فرمایا:کیا ہم تمہارے دین میں آئیں اگرچہ ہم اس سے بیزار ہوں ؟ اس پر انہوں نے کہا : ہاں پھر بھی تم ہمارے دین میں آ جاؤ، تو آپ علیہ السَّلام نے فرمایا:جب اللہ نے تمہارے اس باطل دین سے ہمیں بچایا ہوا ہے اور تمہارے باطل دین کی قباحت اور اس کے فساد کا علم دے کر مجھے شروع ہی سے کفر سے دور رکھا اور میرے ساتھیوں کو کفر سے نکال کر ایمان کی توفیق دے دی ہے تو اگر اس کے بعد بھی ہم تمہارے دین میں آئیں تو پھر بیشک ضرور ہم اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں میں سے ہوں گے اور ہم میں کسی کا کام نہیں کہ تمہارے دین میں آئے مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ کسی کو گمراہ کرنا چاہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔([12])

عذاب سے ڈرایا:آپ نے اپنی قوم کو اس طرح بھی سمجھایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔([13]) ا ور اے میری قوم! انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پوراکرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔([14]) اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔([15])

(جاری ہے)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])نہایۃ الارب، 13/145

([2])نہایۃ الارب، 13/145

([3])نہایۃ الارب، 13/145

([4])المنتظم فی تاریخ الملوک والامم،1/326

([5])نہایۃ الارب، 13/145

([6])نہایۃ الارب، 13/145

([7])نہایۃ الارب، 13/145

([8])نہایۃ الارب، 13/146

([9])تفسیر طبری،5/544، الاعراف:86

([10])پ8،الاعراف:85

([11])پ9،الاعراف،88

([12])صراط الجنان،3/376بتغیر

([13])پ12،ھود:84

([14])پ12، ھود:85

([15])پ12،ھود:86


Share

Articles

Comments


Security Code