کسی کی جان نہ لیجئے!

فریاد

کسی کی جان نہ لیجئے !

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء

اللہ پاک کے نزدیک بے شک پسندیدہ دین ”اسلام“ ہے، اسلام میں انسانی جان کا بہت ہی زیادہ احترام ہے اور کسی انسان کو” ناحق اور بے قصور قتل کرنا“ شدید کبیرہ گناہ ہے۔ اسی لئے اسلام جہاں دیگر برائیوں سے روکتا ہے وہیں کسی کو” ناحق قتل کرنے“ والی برائی سے بھی اپنے ماننے والوں کو سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔ خالقِ کائنات جَلَّ جَلَالُہ اپنی پاکیزہ کتاب قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:

(وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-)

ترجَمۂ  کنزالعرفان: اور جس جان (کے قتل) کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق نہ مارو۔ ([1])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور اسلام نے ہمیں یہ بات بھی سمجھائی ہے کہ جس نے بلا اجازتِ شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، نیز ناحق قتل کے ذریعے ”قاتل“ اللہ پاک کے حق، بندوں کے حق اور شریعت کی حدود سب کو ہی پامال کردیتا ہے۔یوں ہی جس نے کسی کی زندگی بچا لی جیسے کسی کو قتل ہونے، ڈوبنے، جلنے یا بھوک سے مرنے اور ان کے علاوہ دیگر اَسباب ِہلاکت سے بچالیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو ہلاک ہونے سے بچالیا۔چنانچہ رَبُّ الْعٰلَمِین ارشاد فرماتاہے:

(كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-)

ترجَمۂ  كنز العرفان: ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔([2])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ فرمانِ خدا جس طرح بنی اسرائیل کے لئے تھااسی طرح مسلمانوں کے لئے بھی ہے،کیونکہ گزشتہ امتوں کے جو احکام بغیر تردید کے ہم تک پہنچے ہیں وہ ہمارے لئے بھی ہیں۔ نیز یہ آیت ِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پسِ پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قَتل و غارَت گری کے حامی ہونے کا بَد نُما دھبا لگاتے ہیں۔([3])

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والے کی اُخْرَوِی سزابیان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:

(وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳))

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گااور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔([4])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

انسانی جان کی حرمت واہمیت اسلام کے نزدیک کس قدر ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بانیِ اسلام، رسولِ خیرُ الاَنام صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب بیعت لیتے تو عام طور پر جن برے کاموں کو نہ کرنے کا سامنے والوں/والیوں سے عہد لیتے ان میں”کسی جان کو ناحق قتل کرنا“ بھی شامل ہوتا۔([5]) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے مختلف وعیدیں بیان کرکے بھی اس برائی سے لوگوں کو منع کیا چنانچہ3فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:

(1)تباہ وبرباد کرنے والی سات چیزوں سے بچو! صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: یارسول اللہ!وہ (سات چیزیں) کیا ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے(ان چیزوں کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی ) ارشاد فرمایا: اس جان کا قتل کرنا کہ جس کا ”ناحق قتل“ الله پاک نے حرام کیاہو۔([6])

(2)اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ پاک سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ ([7])

(3)قیامت کے دن مقتول بارگاہِ الٰہی میں یوں حاضر ہو گا کہ ایک ہاتھ میں اپنا سر اوردوسرے ہاتھ میں قاتل کا گریبان پکڑا ہو گا جبکہ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا یہاں تک کہ وہ عرشِ الٰہی کے پاس پہنچ کر اللہ ربُّ العٰلمین کی بارگاہ میں عرض کرے گا: یہ ہے وہ شخص جس نے مجھے قتل کیا تھا۔اللہ پاک قاتل سے فرمائے گا: ’’تیری ہلاکت ہو۔‘‘ پھر اُسے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ ([8])بعض اوقات کوئی شخص” ناحق قتل“ میں ڈائریکٹ قاتل کی مدد کرتاہے جبکہ بسا اوقات یہ بھی ہوتاہے کہ کوئی شخص خود قتل نہیں کرتا بلکہ کسی دوسرے سے قتل کرواتا ہے، دونوں طرح کے ہی افراد کو درج ذیل 2فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عبرت حاصل کرنی چاہئے:

(1) ”جس نے کسی مومن کے قتل پر آدھے کلمے جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’اٰیِسٌ مِّنْ رَّحْمَۃِ اللہ یعنی اللہ پاک کی رحمت سے مایوس۔‘‘([9])

(2)(جہنم کی) آگ کو ستر حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، 69 حصے قتل کا حکم دینے والے کے لئے ہیں اور ایک حصہ قاتل کے لئے ہے۔([10]) حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:قیامت کے دن مقتول بیٹھا ہو گا، جب اس کا قاتل گزرے گا تو وہ اسے پکڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرے گا: اے میرے رب! تو اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ پاک قاتل سے فرمائے گا: تو نے اسے کیوں قتل کیا؟ قاتل عرض کرے گا: مجھے فلاں شخص نے قتل کا حکم دیا تھا، چنانچہ قاتل اور قتل کا حکم دینے والے دونوں کو عذاب دیا جائے گا۔([11])

انسانی حقوق سمجھنے والے،انہیں دوسروں کے سامنے بیان کرنے والے اور انسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار ہر شخص سے میری فریاد ہے!دنیا میں کسی کا ”ناحق قتل“ نہ ہو اس کےلئے اپنی کوششیں صَرف کیجئے، انسان ہونے کے ناطے دوسرے انسانوں کا احترام کیجئے اور انہیں تحفظ فراہم کیجئے۔ اللہ پاک ہر ایک کو اس پیغام پر عمل کرنے اور اسے عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری



([1])پ8،الانعام:151

([2])پ6،المآئدۃ:32

([3])صراط الجنان،2/420

([4])پ5،النساء:93

([5])پ28،الممتحنۃ:12-بخاری،4/359،حدیث:6873-مسلم،ص 726،حدیث:4461

([6])بخاری،2/242،حدیث:2766

([7])معجم صغیر،1/205

([8])معجم اوسط، 3/170، حدیث:4217

([9])ابن ماجہ، 3/262، حدیث :2620

([10])مسند احمد، 38/165، حدیث: 23066

([11])شعب الایمان، 4 / 341، حدیث: 5329


Share