نواسۂ رسول حضرت سیدنا امام حسین  رضی اللہُ عنہ

کم سِن صحابہ کرام

نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ

*مولانا اویس یامین عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء

قارئینِ کرام! اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شَعْبَانُ شَھْرِیْ یعنی شعبان میرا مہینا ہے۔(جامع صغیر، ص301، حدیث:4889) شعبانُ المعظم کے مبارک مہینے کو جہاں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت حاصل ہے وہیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نواسے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ سے بھی نسبت حاصل ہے کہ اس مہینے میں آپ رضی اللہُ عنہ کی ولادت ہوئی، آئیے! اس مناسبت سے امام حسین رضی اللہُ عنہ کے بچپن کے بارے میں پڑھ کر اپنے دلوں کو محبتِ صحابہ و اہلِ بیت سے روشن کرتے ہیں:

مختصر تعارف:

آپ حضرت فاطمہ و علی رضی اللہُ عنہما کے بیٹے، حضرت امام حسن کے بھائی اور حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نواسے ہیں۔ آپ رضی اللہُ عنہ کی ولادت 5شعبانُ المعظم 4 ہجری کو مدینۂ منوّرہ میں ہوئی۔([1])

بعدِ ولادت کرم نوازی:

حضرت ابو  رافع رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ جب امام حسین رضی اللہُ عنہ پیدا ہوئے تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے کان میں اذان دی۔([2])

گھٹی دی اور نام رکھا:

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہُ عنہ کو گھٹی دی، آپ کا نام ”حسین“ رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا۔([3])

عقیقہ فرمایا:

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دو دنبوں کے ذریعے آپ رضی اللہُ عنہ کا عقیقہ فرمایا اور حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کو آپ کا سَر مونڈانے اور سَر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔([4])

کندھے پر سوار فرمایا:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کے ساتھ گھر سے باہر نکلے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک کندھے پر حضرت امام حسن کو اور دوسرے کندھے پر امام حسین کو سوار فرمایا ہوا تھا، رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی امام حسن کا بوسہ لیتے تو کبھی امام حسین کا بوسہ لیتے یہاں تک کہ ہمارے پاس تشریف لے آئے۔([5])

حضور کی شفقت و محبت:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ عشا کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سجدے میں گئے تو امام حسن اور امام حسین آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک پیٹھ پر چڑھ گئے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدے سے سَر مبارک اُٹھاتے ہوئے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے آہستہ سے اُتار دیا، جب آپ نے دوبارہ سجدہ کیا تو ان دونوں نے پھر اسی طرح کیا یہاں تک کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز پوری ادا فرما لی اور ان دونوں کو اپنی رانوں پر بٹھا لیا، میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا اور عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیا میں ان دونوں کو ان کی والدہ کے پاس چھوڑ آؤں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: نہیں۔ جب ایک بجلی سی چمکی تو آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ، تو روشنی اس وقت تک ٹھہری رہی جب تک امام حسن اور امام حسین گھر میں داخل نہ ہوگئے۔([6])

فضائل و مناقب:

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہُ عنہ کو اپنی گود میں بٹھایا، سونگھا، اپنے سینے سے لگایا، اپنی مبارک چادر میں لیا، آپ کو جنتی جوانوں کا سردار اور دنیا میں میرا پھول فرمایا۔([7]) *فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین سے محبت کرے۔([8]) * رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کے عرض کرنے پر آپ رضی اللہُ عنہ کو اپنی وراثت سے شُجاعت اور سخاوت عطا فرمائی۔([9]) *نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی: اے اللہ! میں اس (یعنی امام حسین رضی اللہُ عنہ) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت فرما۔([10])

جوبات کام کی نہ ہو اُسے چھوڑ دو:

آپ رضی اللہُ عنہ سے کئی احادیث مبارکہ بھی مروی ہیں۔([11]) چنانچہ ایک روایت میں آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: انسان کے اسلام کی خوبی میں سے یہ ہے کہ فضول و بےکار باتیں چھوڑ دے۔([12])

شہادت:

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری کے وقت آپ رضی اللہُ عنہ تقریباً 6 سال 6ماہ کے تھے، آپ رضی اللہُ عنہ نے 56سال 5ماہ کی عمر میں 10محرم الحرام 61ھ کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔([13])

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: امام حسین رضی اللہُ عنہ کی سیرت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کا 41صفحات کا رسالہ ”امام حسین کی کرامات“ پڑھئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])معجم الصحابہ للبغوی، 2/14

([2])معجم کبیر، 1/313، حدیث:926

([3])مسند بزار، 2/315، حدیث:743-مستدرک، 4/154، 155، حدیث: 4826، 4829

([4])نسائی، ص688، حدیث: 4225- الطبقات الکبیر لابن سعد، 6/355

([5])مستدرک، 4/156، حدیث: 4830

([6])مسند احمد، 3/592، حدیث: 10664- مستدرک، 4/158، حدیث: 4835

([7])مسند احمد، 10/184، حدیث: 26602- ترمذی، 5/426، 427، 428، 433، حدیث: 3793، 3795، 3797، 3812

([8])ترمذی، 5/429، حدیث:3800

([9])معجم کبیر، 22/423، حدیث:1041

([10])ترمذی، 5/427، حدیث: 3794

([11])اصابہ فی تمییز الصحابہ، 2/68

([12])مسنداحمد، 1/429، حدیث:1737

([13])مستدرک، 4/172، سوانح کربلا، ص170


Share