خوش اخلاق بنئے

اسلام کی روشن تعلیمات

خوش اخلاق بنئے

*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء

اسلام کی روشن و منور تعلیمات میں سے بہت ہی حسین پیغام  اور  حسنِ معاشرت کا بڑا پیارا اصول رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمان بھی ہے: وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنیعنی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ ([1])

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا یہ فرمان مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کی وصیت پرمشتمل ہے۔

خُلق حَسن سے مراد  ایسی پختہ عادت جس سے سارے کام آسانی سےہوجائیں،اُسے”خلق حَسن“ یعنی حسنِ اخلاق کہتے ہیں۔ نیز خُلق ِحَسن کا ایک معنی  مسکرا کر ملنا ، تکلیف دہ چیزدور کرنا اورنیک کام میں خرچ کرنا ہے۔ نیز اس کی  شرح  میں یہ بھی فرمایا گیا کہ  لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آؤ جس طرح تمہیں پسند ہے کہ وہ تمہارے ساتھ پیش آئیں۔([2])

اِس وضاحت سے معلوم ہوا کہ وقتی طور پر کوئی اچھا کام ہوجائے جیسے بےجاغصہ آنے پر اُسے کبھی قابو کرلینا اگرچہ اچھا کام ہے لیکن اِسے حسنِ اخلاق  اُسی صورت میں کہیں گے جب یہ طبیعت کا حصّہ بن جائے۔

امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں:عام طور پر اچھے اَخلاق والا اُسے کہا جاتا ہے جو مسکرا کر خوب گرم جوشى سے مُلاقات کرے۔ مسکرا کر گرم جوشى سے مُلاقات کرنا بھی اگرچہ اچھے اَخلاق کا حصہ ہے لىکن اس میں حُسنِ معاشرت، دوسروں کو نفع (فائدہ) پہنچانا اور نقصان سے بچانا وغیرہ چیزیں بھی داخل ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مسکراکر گرم جوشی سے مِل رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی دوسروں کو نقصان بھی پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بات ان کے مزاج کے خلاف ہو جائے تو وہ غصے میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں مثلاً کسی نے آپ کے ساتھ مسکرا کر گرم جوشی سے ملاقات کی اور پھر بڑی محبت کے ساتھ بریانی کی پلیٹ لا کر آپ کو پیش کی، اس دَوران آپ نے کوئی بات اس کے مزاج کے خلاف کر دی تو اس نے وہی پلیٹ آپ کے مُنہ پر مار دی تو اسے حُسنِ اَخلاق نہیں بلکہ بَداخلاقی کہیں گے۔ اچھے اَخلاق اور خوب مسکرا مسکرا کر تو بعض تاجِر حضرات بھی ملتے ہیں اور چائے بوتل کے ذَریعے گاہک کی خوب آؤ بھگت بھی کرتے ہیں، مگر سودا نہ ہونے یا ان کے مزاج کے خلاف بھاؤ لگا دینے سے غصے میں آ جاتے ہیں تو ایسے تاجِر بھی بااَخلاق نہیں بلکہ مَفاد پَرست ہوتے ہیں۔ ان کا یہ اَخلاق اللہ پاک کی رضا کے لئے نہیں بلکہ گاہک کو پھنسانے کے  لئے ہوتا ہے۔ اچھے اَخلاق اور مسکرا کر ملنے کا ثواب اسی صورت میں ملے گا جب یہ کام اللہ پاک کی رضا کے  لئے  کئے جائیں،ان میں اپنا کوئی ذاتی مَفاد مثلاً میری چیز فروخت ہو جائے، لوگ مجھے مِلنسار یا بااَخلاق کہىں اور مىرى ذات سے مُتأثر ہوجائىں وغیرہ وغیرہ کچھ نہ ہو۔([3])

جس طرح  گہرےپانی میں موجود کشتی کامعمولی معمولی سوراخوں کی وجہ سے ڈوبنا یقینی ہوجاتا ہے ایسے ہی زندگی کی کشتی بداخلاقی کے سوراخ کےسبب ڈوب جاتی ہے، اپنی کشتی کنارے تک پہنچانے کے لئے” خوش اخلاقی “ اپنانا سب سے زیادہ کا ر آمد ثابت ہوتا ہے۔ ”اچھے اخلاق“کردار کو اچھا بنانے کے لئے بنیادی  حیثیت رکھتے ہیں، کیوں کہ اچھایابراانسان اپنے اخلاق سےپہچانا جاتا ہے، اگر اخلاق  اچھے  ہوں توبندے کی غلطیوں کےدرست ہونے کی امید لگی رہتی ہے،اگر اخلاق بُرے ہوں توبندےکی دیگر خوبیوں کے ختم ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جس کے اخلاق جتنے زیادہ اچھے ہوں گےاس کا کردار بھی اتنا ہی اچھا ہوگا، اچھے اخلاق والے کی ہر کوئی عزت کرتاہے اورہرجگہ اس کی قدر کی جاتی ہے جبکہ برے اخلاق والے کی دل سے نہ کوئی عزت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی قدر، بلکہ اُلٹا اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا وآخرت میں سب سے بہترین اخلاق والے ہیں، اللہ پاک نےآپ کے اخلاق کی تعریف قراٰنِ کریم میں بھی فرمائی ہے۔آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حسنِ اخلاق اور اچھے اعمال کی تکمیل کے لئے دنیا میں تشریف لائے چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  فرماتے ہیں:ا ِنَّ اللهَ بَعَثَنِیۡ بِتَمَامِ مَكَارِمِ الْاَخۡلَاقِ وَكَمَالِ مَحَاسِنِ الۡاَ فۡعَالِ یعنی بے شک اللہ نے مجھے حُسن ِ اخلاق اوراچھے اعمال کو تمام وکمال تک پہنچانے کے لئے بھیجاہے۔([4])

حسنِ اخلاق کے فضائل:

 رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اچھے اخلاق کے یہ فضائل بیان فرمائے:( 1)بےشک بندہ حُسنِ اخلاق کے ذریعے دِن میں روزہ رکھنے اور رات میں قِیام( یعنی عبادت) کرنے والوں کے دَرَجے کو پا لیتا ہے۔([5]) (2)بارگاہ ِ رسالت میں پوچھا گیا کہ مسلمان کوسب سے بہترین چیز کیا دی گئی ہے؟ فرمایا: حسن ِ اخلاق۔([6]) ( 3) مىزانِ عمل (یعنی ترازو) مىں حُسنِ اَخلاق سے زىادہ وزنى کوئى چىز نہىں۔([7]) (4)رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دُعا فرمایاکرتے:اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُو ءِ الْاَخْلَاقِ یعنی اے اللہ!میں تیری پناہ مانگتا ہوں مُنافَرت (لوگوں سے نفرت کرنا)، مُنافقت اور بُرے اخلاق سے۔([8]) (5) اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اکثر لوگوں کے جنّت میں جانے کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا: اللہ کا خوف اور اچھے اخلاق(یعنی اللہ کا خوف اور اچھے اخلاق لوگوں کو سب سے زیادہ جنّت میں داخل کریں گے۔) ([9])

اچھے اخلاق اپنانے کی کوشش کیجئے: اِس بات میں کوئی  شک نہیں کہ  اچھے اخلاق ہماری دنیاو آخرت کامیاب بنانے کے بہترین ذرائع ہیں،ہمیں چاہئے کہ کسی سے غلطی ہوجائے تو اُسے ڈانٹنے، جھاڑنےاور دل دُ کھانے والی باتیں کرکے تکلیف نہ پہنچائیں بلکہ دل بڑا کرکےغلطی معاف کرنے کی عادت بنائیں، جہاں بولنا ضروری ہو وہاں چپ رہنے  کی عادت ختم کیجئے اور جہاں چپ رہنا ضروری ہو وہاں بولنے سے بچئے کیوں کہ کبھی بول دینے سے مسائل ختم ہوتے ہیں اور کبھی چپ اس لئے رہا جاتا ہے تاکہ مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ مسکراہٹ کی کشش مقناطیس سے بھی زیادہ ہے لہٰذا مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجاکر رکھنے کی کوشش کیجئے۔کسی گرتے کو سہارا دیجئے، اگر آپ میں کوئی صلاحیت ہے تو اُس پر تکبر کرنے کے بجائے عاجزی اختیارکیجئے۔چھوٹوں پر شفقت کیجئے، بڑوں کا احترام کیجئے۔ مشکلوں،آزمائشوں اور پریشانیوں کی تپش جھلسا رہی ہو تو فوراً صبر کے سائے میں آجائیےیوں بے صبری سے بھی بچ جائیں گے اور راحت و سکون بھی پائیں گے۔

 قراٰن وحدیث اور بزرگوں کی کتابوں میں حسنِ اخلاق کی تھیوریز موجود ہیں جن کو پڑھنا بہت ہی بابرکت ہے لیکن نیک لوگوں کو دیکھ دیکھ کر حسنِ اخلاق سیکھنا زیادہ مفید رہتا ہے۔ اِس لحاظ سےدعوتِ اسلامی کا دینی ماحول ہمیں ہفتہ وار اجتماعات، مدنی مذاکرے،تربیتی اجتماعات وغیرہ دینی کاموں کی صورت میں  کئی ایسے مواقع فراہم کرتا ہے، آئیے! حسنِ اخلاق اپنانے اور دنیاو آخرت کے بہت سےفائدے پانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوجائیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])ترمذی، 3/398، حدیث:1994

([2])الفتوحات الر بانیہ لابن علان، 7/240

([3])چہرہ خوبصورت بنانے کا عمل، ص1تا2

([4])مجمع الزوائد،8/343، حدیث:13684

([5])ابوداؤد،4/332،حدیث: 4798

([6])شعب الایمان،6/235، حدیث:7992

([7])ابوداؤد،4/332،حدیث:4799

([8])ابوداؤد،2/130، حدیث: 1546

([9])ترمذی،3/404،حدیث:2011


Share

Articles

Comments


Security Code