راہِ خدا میں خرچ کی ترغیب کے قرآنی اسالیب(آخری قسط)

تفسیر قراٰنِ کریم

راہِ خدا میں خرچ کی ترغیب کے قرآنی اسالیب (دوسری اور آخری قسط)

* مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء

گذشتہ سے پیوستہ

ترغیب کا پانچواں انداز:اچھے کام سے رُکنے کے پیچھے کوئی نہ کوئی رکاوٹ ہوتی ہے، خواہ داخلی ہو یا خارجی۔ اللہ تعالیٰ نے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اسباب پر ہمیں مطلع فرمایا چنانچہ خارجی اسباب کا رَد کرکے خرچ کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ(۲۶۸))

ترجمہ: شیطان تمہیں محتاجی کااندیشہ دلاتا ہے اور بے حیائی کاحکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی طرف سے بخشش اور فضل کاوعدہ فرماتا ہے اور اللہ وسعت و الا، علم والا ہے۔ (پ03،البقرۃ:268)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

صدقہ و خیرات کرنے میں خارجی رکاوٹ ”شیطان“ ہے جو وسوسہ ڈالتا ہے کہ لوگو، تم صدقہ دو گے تو خود فقیر و نادا رہوجاؤ گے، لہٰذا خرچ نہ کرو۔ اِس کے جواب میں خدا نے فرمایا کہ شیطان تو تمہیں بخل و کنجوسی کی طرف بلاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم اُس کی راہ میں خرچ کرو گے، تو وہ تمہیں اپنے فضل اور مغفرت سے نوازے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ بڑی وسعت والا ہے، وہ صدقہ سے تمہارے مال کو گھٹنے نہ دے گا، بلکہ اس میں اور برکت پیدا کردے گا۔

ترغیب کا چھٹا انداز: جیسے اوپر بیان کیا گیا کہ نیکی سے رُکنے کے پیچھے کوئی نہ کوئی رکاوٹ ہوتی ہے، خواہ داخلی ہو یا خارجی۔ لہٰذا جس طرح اللہ تعالیٰ نے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی راہ میں خارجی سبب شیطان کے وَسَاوِس کا رَد کیا، اسی طرح داخلی اسباب کو بیان فرما کر اُن کے حوالے سے رہنمائی فرمائی۔ داخلی اسباب میں نفس کا لالچی اور کنجوس ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کی مذموم صفت کے متعلق متنبہ فرمایا اور اس صفت سے نجات پر خوش خبری سنائی، چنانچہ فرمایا:

(وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ-)

ترجمہ: اور دل کو لالچ کے قریب کردیا گیا ہے۔ (پ5،النساء:128) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 اس لالچ سے چھٹکارا پانے کی فضیلت بیان فرمائی:

(وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) )

 ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔(پ28،الحشر:09)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اِسی وصفِ مذموم کے متعلق نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شُحّ (یعنی نفس کے لالچ) سے بچو، کیونکہ اس لالچ نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیا کہ اِسی نے اُن کوناحق قتل کرنے اورحرام کام کرنے پر ابھارا۔ ( مسلم،ص 1069، حدیث: 6576) یونہی راہِ خدا میں خرچ کرنے میں ”بخل“ بہت بڑی داخلی قلبی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-)

ترجمہ : ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اورجو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے۔ (پ 26،محمد:38) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اپنی ہی جان پر بخل یوں کرتا ہے کہ بخل کرکے خرچ کرنے کے ثواب، غریبوں کی دعاؤں، محتاجوں کی محبت، نیکوں میں نام، سخیوں میں شمار، خدا کے قرب اور جنت کے بلند درجات سے محروم ہو جائے گا اور بخل کا نقصان اُٹھائے گا۔

ترغیب کا ساتواں انداز: نفس کی لالچ اور بخل کے پیچھے بھی ایک سبب ہے، جو انسان کو راہِ خدا میں خرچ سے روکتا ہے اور وہ ہے ”مال کی محبت “ بلکہ مال کی محبت دیگر کئی برائیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے اگر مال کی محبت دل سے نکل جائے یا کم ہوجائے تو راہِ خدا میں دینا آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ انداز سے محبتِ مال کی مذمت اور لوگوں کے اِس مذموم صفت کا شکار ہونے کا بیان کیا، چنانچہ فرمایا:

(وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاؕ(۲۰))

ترجمہ:اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔ (پ30، الفجر: 20) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہاں آیات کے سیاق و سباق کے اعتبار سے کفار کی خصلت بیان کی گئی ہے کہ تم مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو کہ اس کو خرچ کرنا ہی نہیں چاہتے اور اِسی سبب سے یتیموں کی عزت نہیں کرتے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے، دوسروں کو صدقہ و خیرات کی ترغیب نہیں دیتے، بلکہ دوسروں کا مال کھاجاتے ہو، اُن کی زمین، جائیداد، مال، وراثت اور ملکیت پر قبضے کرتے ہو، بلکہ اِسی سبب سے قتل و غارَت گَری کرتے ہو۔ الغرض فساد کی جڑ یعنی مال کی محبت کی وجہ سے ہر طرح کا بگاڑ پیدا کرتے ہو۔

ایک اور جگہ پرمال کے سببِ غفلت ہونے، مال کے ناپائیدار ہونے اور قبر و آخرت کی فکر دلاتے ہوئے  ارشاد فرمایا: (اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ(۳) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَؕ(۴))

ترجمہ: زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نےتمہیں غافل کردیا۔یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا۔ہاں ہاں اب جلد جان جاؤ گے۔پھر یقینا ًتم جلد جان جاؤ گے۔(پ 30،التكاثر:1...4) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم، اللہ تعالیٰ کی کیسی مہربانی، رحمت، کرم نوازی اور بندہ پروری ہے کہ بندوں کی اِصلاح وفَلاح اور مخلوق کی بہتری اور خیر خواہی کے لیے کس قدر متنوع انداز میں ایک ہی حکم کو بیان فرمایا۔ یہی وہ اسلوبِ قرآنی ہے جس کے متعلق خداوند کریم نے فرمایا:

(وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِیَذَّكَّرُوْاؕ-)

ترجمہ: اور بیشک ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان فرمایا تاکہ وہ سمجھیں۔ (پ15،بنی اسرائیل:41)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی ہم نے اس قرآن میں نصیحت کی باتیں بار بار بیان فرمائیں اور کئی طرح سے بیان فرمائیں، جیسے کہیں دلائل سے، تو کہیں مثالوں سے، کہیں حکمتوں سے اور کہیں عبرتوں سے اور اِن مختلف اندازوں میں بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی طرح نصیحت وہدایت کی طرف آئیں اور سمجھیں۔ یہ اُسلوبِ قرآنی، نفسیاتِ انسانی کے مطابق ہے کہ لوگوں سے اُن کی سمجھ کے مطابق کلام کیا جائے، کیونکہ بعض لوگ دلائل سے مانتے ہیں اور بعض ڈَر سے اور کچھ مثالوں سے۔ یونہی بعض اوقات ایک آدمی کی حالت ہی مختلف ہوتی رہتی ہے، کسی وقت اُسے ڈرا کر سمجھانا مفید ہوتا ہے اور کسی وقت نرمی سے، وغیرہا۔

عنوان میں مذکور آیت کے آخر میں فرمایا:

{وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪- اور اللہ تنگی دیتا ہے اوروسعت دیتا ہے۔} چونکہ وَسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے تو اس شبہ کا ازالہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے روزی تنگ کردے اورجس کے لیے چاہے،وسیع فرمادے، تنگی و فراخی تو اُس کے قبضہ میں ہے اور وہ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے سے وسعت کا وعدہ کرتاہے تو راہِ خدا میں خرچ کرنے سے مت ڈرو، جس کی راہ میں خرچ کررہے ہو، وہ کریم ہے اور اس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور جُوْد وبخشش کے خزانے لٹانا اُس کریم کی شان ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: رحمٰن کا دستِ قدرت بھرا ہوا ہے، بے حد و حساب رحمتیں اور نعمتیں یوں برسانے والا ہے کہ دن رات (کے عطا فرمانے) نے اُس میں کچھ کم نہ کیا اور دیکھو تو کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے اب تک اللہ تعالیٰ نے کتنا خرچ کردیا ہے، لیکن ا س کے باوجود اس کے دستِ قدرت میں جو خزانے ہیں، اُس میں کچھ کمی نہیں آئی۔ (ترمذی، 5 / 34، حدیث:3056)

دعا: اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے حرص و ہوس، بخل اور مال و دنیا کی محبت دور کرکے اپنی محبت عطا فرمائے، ہمیں آخرت کی تیاری کا جذبہ اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code