اسلام کا نظام
اسلام اور تعلیم(قسط:02)
*مولانا عبدالعزیز عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء
(3)تعلیم عام کرنے کی ترغیب
تعلیم عام کرو:علم کی شمع کو روشن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جو شخص کچھ سیکھ لے تو وہ اس کو اپنے تک محدود نہ رکھے بلکہ دوسروں کو بھی سکھائے چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: پہنچا دو میری طرف سے اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ ([1])جو لوگ موجود ہیں وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچائیں جو موجود نہیں۔ ([2])
(4)حصولِ علم کے مواقع و ذرائع کا انتظام
حصولِ علم کے مواقع کی فراہمی:علم کی شمع کو روشن کرنے اور لوگوں کو اس سے مزین کرنے کے لئے مرکز کا قیام ضروری ہے تاکہ انتظام اور معاملات خوش اسلوبی سے سرانجام دیے جائیں اور لوگوں کو علم حاصل کرنے کا بہترین پلیٹ فارم بھی فراہم کیا جائے چونکہ اس زمین کے طول و عرض میں بے شمار لوگ آباد ہیں اور ان کو علم سے آراستہ کرنے کے لئے کسی ایک جگہ پر جمع نہیں کیا جاسکتا تو اس کے لئے مختلف مقامات پر برانچز کھولی جا سکتی ہیں تاکہ جو مقام جس کے قریب ہو وہ وہاں سے مستفید ہو، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرکز قائم کیا اور بعد میں اس کی مختلف برانچز قائم کی گئیں۔
اولین مرکز دارِ ارقم: حضرت سیدنا ارقم رضی اللہُ عنہکا گھر کوہِ صفا کے پاس واقع تھا، ابتدائے اسلام میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی گھر میں رہا کرتے تھے، یہیں آپ لوگوں کو دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے۔([3])
ہجرت کے بعد تعلیمی مرکز کا قیام:ہجرتِ مدینہ کے بعد حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسجدِ نبوی میں ایک باقاعدہ درس گاہ قائم فرمائی تاکہ مبلغین کی ایک تربیت یافتہ جماعت تیار کی جائے اصحابِ صفہ کی صورت میں جب یہ جماعت تیار ہوگئی تویہ اپنے علم و فضل کی وجہ سے قراء کہلاتے تھے۔([4])
مختلف برانچز کا قیام:تعلیم عام کرنے کےلئے مختلف برانچز بھی قائم کی گئیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
رہائشی قیام گاہ:حضرت عبد اللہ بن اُمِّ مکتوم رضی اللہُ عنہ غزوۂ بدر کے بعد ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے اور دار القراء میں ٹھہرے۔([5])
جامع مسجد بصرہ:حضرت سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہُ عنہ نے بصرہ کی مسجد کو سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ علمی مجالس کے لئے خاص کردیا تھا، صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرتا تھا جسے آپ تعلیم، تدریس اور لوگوں کو تبلیغ کرنے میں استعمال نہ کرتے ہوں چنانچہ سیر اعلام النبلاء میں آپ کی تدریسِ قراٰن کا ذکر ہے کہ نمازِ فجر کا جب سلام پھیر تے تو لوگوں کی طرف منہ کرلیتے اور انہیں قراٰن پاک پڑھنے کا طریقہ بتاتے۔([6])
جامع مسجد دمشق: حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہُ عنہجامع مسجد دمشق میں بہت ہی وسیع علمی حلقہ لگاتے تھے جس میں کم وبیش ایک ہزار سے کچھ زائدافراد شریک ہوتے تھے۔([7])
مختلف اساتذہ کا تقرر:جب کوئی شخص ہجرت کرکے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اس کو قراٰنِ مجید کی تعلیم کے لئے صحابَۂ کرام میں سے کسی کے سپرد کردیتے۔([8])حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ مسجدِ نبوی سے متصل چبوترے پر اہلِ صفہ کو قراٰنِ مجید کی تعلیم دیتے تھے۔([9])حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہکو مکۂ مکرمہ والوں کی طرف بھیجا تاکہ ان کو قراٰن پاک سکھائیں اور یاد کروائیں۔([10])
بہترین اساتذہ کا انتخاب:حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ السّلام کی بارگاہ میں عرض کیا: مجھے کسی بہترین استاد صاحب کے حوالے فرمائیں تو آپ نے مجھے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہُ عنہ کے سپرد کیا پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے تجھے ایسے مرد کے حوالے کیا ہے جو تجھے بہترین تعلیم دے گا اور ادب سکھائے گا۔([11])
مدرسين كی حوصلہ افزائی:حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے اجناد کے امراء کو خط لکھا کہ قراٰنِ مجید کے قاریوں کو میرے پاس بھیجو تاکہ میں ان کی حوصلہ افزائی کے طور پر انہیں کچھ عطا کروں اور انہیں دیگر مختلف علاقوں میں قراٰن پاک کی تعلیم عام کرنے کے لئے بھیجوں۔([12])
ایک شخص کی مختلف ذمہ داریاں: حضور علیہ السّلام نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہکو یمن کے علاقہ الجند کا قاضی مقرر فرما یا تاکہ وہ لوگوں کو قراٰن مجید اور اسلامی احکامات کی تعلیم دیں، ان کے مقدمات کا فیصلہ کریں اور یمن میں حضور علیہ السّلام کی طرف سے صدقات کی وصولیابی پر مقرر عاملوں سے صدقات وصول کریں۔([13])
نصابِ تعلیم کا انتخاب: تعلیم کے بہترین ہونے کے لئے نصابِ تعلیم کا بہترین ہونا ضروری ہے تاکہ معلوم ہو کہ کون کون سے علوم و فنون ہمارے نصاب کا حصہ ہوں گے اور کون سے لوگ ان سے مستفید ہوں گے اور کیسے ہوں گے ان تمام کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔
نصابِ تعلیم:حضرت عمرو بن حزم رضی اللہُ عنہکو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نجران والوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں قراٰنِ مجید کی تعلیم دیں اور ان سےصدقات وصول کریں، فرائض، سنن، صدقات اور خون بہا کے احکام سے متعلق انہیں ایک مکتوب بھی عطا فرمایا۔([14]) اسلام اور اس کی تعلیمات کے آٹھ حصّے ہیں: (1) اسلام (2)نماز (3) زکوٰۃ (4) رمضان کے روزے (5) حجِ بیت اللہ (6) جہاد (7)نیکی کا حکم دینا اور (8)برائی سے منع کرنا۔([15])
اشاعتِ علم کے لئے مختلف علاقوں کا انتخا ب:تعلیم کو عام کرنے کے لئے علاقوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ جہاں تعلیم کا فقدان ہو یا کمی ہو تو وہاں بہترین انتظام کیے جائیں اور ان کی ضرورت کو پورا کیا جائے بلکہ علاقے والے بھی اپنی ضروریات کے پیشِ نظر مطالبہ کر سکتے ہیں۔
علاقہ کا چناؤ:حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہُ عنہکو عقبہ والوں کے ساتھ روانہ فرمایا تاکہ لوگوں کو قراٰنِ مجید کی تعلیم دیں اور دینِ اسلام کی تعلیمات سکھائیں۔([16]) بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments