روشن ستارے
حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ
*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2024ء
جنگِ اُحد میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمزخمی ہوگئے تھے، پانی سے اپنے چہرۂ مبارکہ کو دھو رہے تھے کہ ایک صحابیِ رسول حاضر ہوئے اور عرض کی: یہ کس نے کیا ہے؟ حضورِ اقدس نے ارشاد فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے، عرض کی: پہاڑ پر سےایک آواز سنی تھی کہ محمد عربی کو شہید کردیا گیاہے، میری تو جان ہی نکل گئی تھی اس لئے یہاں آگیا، عتبہ کس طرف ہے؟ رسولِ کریم نے ایک جانب اشارہ فرمادیا، وہ صحابیِ رسول اس طرف گئے اور اسے واصلِ جہنم کردیا، پھر ا س کا سر، سامان اور گھوڑ الےکر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ سامان اپنے اسی جاں نثار صحابی کو عطا فرما دیا اور دو مرتبہ یوں دعا دی: اللہ تجھ سے راضی ہو۔ ([1])
پیارے اسلامی بھائیو! جنگِ احد میں رسولُ اللہ کی خاطر سردھڑ کی بازی لگانے اور دعائے رسول پانے والے یہ صحابی سفیرِ مصطفےٰ حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رضیَ اللہ عنہ تھے۔([2])
حلیہ اور ذریعۂ معاش: آپ کا بدن خوبصورت تھا، داڑھی مبارک گھنی نہ تھی، قد قدرے چھوٹا، ہاتھوں کی انگلیاں سخت اور موٹی تھیں۔ آپ ایک تاجر تھے اور غلّہ بیچا کرتے تھے۔ ([3])
فضائل و مناقب: آپ کا شمار تیر انداز صحابہ میں ہوتا ہے، آپ غزوۂ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ساتھ رہے۔([4])ایک موقع پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو ایک کنواں کھودنے کا حکم ارشاد فرمایا۔([5])رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُمُّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہ سے اپنے نکاح کا پیغام آپ کے ذریعے بھجوایا۔ ([6])
بادشاہِ مصر کا دربار: سن 6 ہجری ماہِ ذیقعدہ میں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینے واپس ہوئے([7])اور کئی سلاطین اور سرداروں کے نام خط لکھ کر انہیں دینِ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، ایک خط شاہِ مصر کے نام لکھا پھر اس پر اپنی مہر مبارک لگائی اور ارشاد فرمایا: تم میں سے کون ہے جو میرے اس خط کو مصر کے بادشاہ کے پاس لے جائے اس کابدلہ اللہ عطا کرےگا، یہ سنتے ہی آپ رضی اللہُ عنہ آگے بڑھے اور یوں عرض گزار ہوئے یارسولَ اللہ! میں جاؤں گا، ارشاد فرمایا: اے حاطب! اللہ تجھے برکت دے، حضرت حاطب بن ابی بلتعہ فرماتے ہیں: میں جب بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو وہ جواہرات سے مُرصّع ایک گنبد میں بیٹھا ہوا تھا جس کے ستونوں پر یاقوت چمک رہےتھے، دربان نے کہا: اے عربی بھائی! آپ کا خط کہاں ہے؟میں نے خط نکالا تو بادشاہ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے ہاتھ سے خط لےلیا پھر اسے چوما اور دونوں آنکھوں پر رکھ لیا اور کہنے لگا: مرحبا! نبی عربی کا خط!پھر وزیر نے خط پڑھنا شروع کیا، تو بادشاہ کہنے لگا: بلند آواز سے پڑھو، یہ خط معزّز ذاتِ کریم کی جانب سے آیا ہے،وزیر نے شروع سے آخر تک خط پڑھ کر سنادیا، پھر بادشاہ نے اپنے خادم خاص سے کہا:میں نے تمہارے پاس کچھ سامان رکھوایا تھا اسے لے کرآؤ، خادم سامان لے آیا تو بادشاہ نے اسے کھول کر اس میں سے ایک عمدہ کپڑا نکالا، اس پر تمام انبیاءِ کرام علیہمُ السّلام اور خاتمُ الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصافِ مبارکہ لکھے تھے، بادشاہ نے مجھ سے کہا: اپنے آقا کے اوصاف یوں بیان کرو کہ میں ان کو دیکھ رہا ہوں، میں نے کہا : کس میں طاقت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے اعضائے مباکہ میں سے کسی عضو کے اوصاف بیان کرسکے؟ تو اس نے کہا کچھ اوصاف بیان کرنا ضروری ہیں۔ چنانچہ میں کھڑے ہوکر نبیِّ محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصافِ مبارکہ بیان کرنے لگا : میرے آقا بےانتہا خوبصورت ہیں، قد و قامت درمیانہ ہے سر مبارک قدرے بڑا، دونوں کندھوں کے درمیان ابھر ا ہوا تل (یعنی مہرِ ختم نبوت) ہے، ناک مبارک اونچی، پیشانی کشادہ،رخسار مبارك نرم ملائم، ہونٹ باریک، دانت چمکتےہوئے، آنکھیں خوب سیاہ، بھنویں ملی ہوئیں، سینہ کشادہ، پیٹ مبارک جیسے لپٹا ہوا نقش و نگار والا کپڑا، جب کھلی جگہ تشریف لاتےہیں تو چودھویں کے چاند کی طرح چمکتے ہیں، عاجزی اختیار کرنے والے، دیانت دار اور پاک دامن ہیں، بات کے سچے ہیں، زبان فصیح، نسب صحیح ہے اور اخلاق حسین ہیں۔ جیسے جیسے میں حلیہ مبارکہ بیان کررہاتھا، ویسے ویسے بادشاہ اپنے پا س کپڑے میں دیکھ رہا تھا، جب میں خاموش ہوا تو وہ کہنےلگا: اے عربی! تم نے سچ کہا اوصاف اسی طرح لکھے ہیں۔ پھر بادشاہِ مصر کھانا کھانے کے دوران مجھ سے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی عادات، رہن سہن کھانے پینے اور استعمال کی چیزوں کے بارے میں مختلف سوالات کرتا رہا اور میں ان سوالات کے جوابات دیتا رہا۔([8]) بادشاہ کی طرف سے ایک سوال یہ بھی ہوا تھا: نبی عربی کو قوم نے جب شہر سے نکالا تو انہوں نے قوم کے خلاف دعا کیوں نہیں کی؟ آپ نے فرمایا: کیا تم لوگ اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں، اس نے کہا: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: جب ان کی قوم نے انہیں پکڑکر سولی پر لٹکانا چاہا تو انہوں نے اپنی قوم کی ہلاکت کی دعا کیوں نہیں کی یہاں تک کہ اللہ نے انہیں (زندہ) اٹھالیا، یہ سن کر بادشاہ کہنےلگا: تم دانشمند ہو اور دانشمند کی طرف سےآئے ہو۔([9])
مصر سے روانگی: حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رضی اللہُ عنہ وہاں 5دن رہے پھر بادشاہ نے آپ کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے ایک خط اور کچھ تحائف دے کر رخصت کیا جن میں ایک ہزار مثقال سونا، عمدہ اور ملائم کپڑے،دُلدُل (نامی) خچر، یعفور (نامی) حمار، ایک غلام اور دو باندیاں بہنیں (حضرت ماریہ قبطیہ اور حضرت سیرین) بھی تھیں، ([10])ایک قول کے مطابق آپ نے تینوں پر اسلام پیش کیا تو دونوں بہنیں راستے میں ہی مسلمان ہوگئیں۔ ([11])
اپنی چیز کی قیمت نہ بڑھائی: ایک مرتبہ آپ بازار میں دو بڑے ٹوکروں میں کشمش بیچ رہے تھےکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا، حضرت عمر نے قیمت معلوم کی۔ آپ نے قیمت بیان کی تو فاروقِ اعظم نے ارشاد فرمایا: مجھے خبر ملی ہے کہ طائف سے ایک قافلہ کشمش وغیرہ لے کر واپس آرہا ہے آپ کے (کم ) ریٹ دیکھیں گے تو اسی ریٹ پر اپنا سامان بیچنا پڑے گا یا تو آپ بھاؤ بڑھادیں یا پھر اپنی کشمش اپنے گھر لے جائیں اور جیسے چاہے بیچیں۔ پھر جب حضرت عمر فاروق گھر تشریف لائے تو اپنے نفس کا محاسبہ فرمایا۔ پھر آپ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: میں نے آپ سے جو کہا تھا وہ نہ تو کوئی پکی بات تھی اور نہ میرا فیصلہ تھا، وہ صرف ایک مشورہ تھا جو شہر والوں کے لئے فائدہ مند تھا، آپ جہاں چاہیں جس ریٹ میں چا ہیں، اپنے کشمش بیچیں۔([12])
وصال: آپ نے بقیہ زندگی کے ایام مدینے میں ہی گزارے اور آخر کار بعمر 65 سال سن 30 ھ میں وفات پائی، جنازہ حضرت عثمان غنی رضیَ اللہ عنہ نے پڑھایا، ترکہ میں 4 ہزار دینار و درہم اور ایک گھر چھوڑا۔([13])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی
Comments