شبِ براءت میں اللہ والوں کے معمولات

نیکیاں

شبِ براءت میں اللہ والوں کے معمولات

*مولانا  ابوالنورراشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء

شعبانُ المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہیناہے۔ اس کی 15ویں رات یعنی شبِ براءت بڑی شان والی ہے۔اس رات میں اللہ پاک کی رحمتوں اور برکتوں کا نُزول ہوتا ہے۔اس رات خاص طور پر اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی دُنیاو آخرت کی بھلائی کی دُعا مانگنی چاہئے کیونکہ اس رات دُعائیں قبول ہوتی ہیں جیساکہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پانچ راتوں کے بارے میں فرمایا کہ ان میں دُعا رَد نہیں کی جاتی،ان میں سے ایک شعبان کی پندرہویں رات(یعنی شَبِ براءَت )ہے۔([1])

احادیثِ مبارکہ، اقوالِ صحابہ اور فرامینِ بزرگانِ دین میں اس رات کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں، نیز رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور بزرگانِ دین نے اس رات کو عبادت میں گزارا اور اسی کی ترغیب دی۔ آئیے چند روایات ملاحظہ کیجئے:

بھلائیوں کے دروازے کھلنے کی رات:

 نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھلنے کی بشارت عطا فرمائی ہے، جن میں سے ایک شعبان کی پندرہویں رات ہے، نیز اس رات میں مرنے والوں کے نام، لوگوں کا رزق اور حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں۔([2])

شبِ براءت میں حضور کے طویل سجدے:

 شبِ براءت میں ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سجدے کس قدر طویل ہوا کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اُمُّ المومنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک رات نماز ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رُوح قبض کر لی گئی ہے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو کھڑی ہوئی اور آپ کے انگوٹھے کو ہلایا تو انگوٹھے میں حرکت پیدا ہوئی، میں واپس چلی گئی پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدے سے سرِ مُبارک اُٹھایا اور نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا: اے عائشہ!  کیا تمہارا یہ گمان تھا کہ نبی تمہارے ساتھ بےوفائی کرے گا؟ میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ! خدا کی قسم ایسا نہیں مگر آپ کے طویل سجدے سے مجھے یہ گمان ہوا تھا کہ کہیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی روح تو نہیں قبض کر لی گئی۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ یہ کون سی رات ہے؟ میں نے عرض کی:اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔فرمایا: یہ نصف شعبان کی رات ہے اس رات اللہ پاک اپنے بندوں پر نَظرِ رحمت فرماتا ہے تو بخشش مانگنے والوں کو بخش دیتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے اور بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔([3])

شبِ براءت میں قبرستان جانا:

ایسا بھی ہوا کہ اُمّت کے لئے فکر مند رہنے والے ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شبِ براءت میں قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں جاکر اپنے رَبّ سے اہلِ قبور کے لئے دُعائیں مانگیں جیساکہ حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پندرہ شعبان کی رات جنّتُ البقیع میں اس حال میں پایا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمان مَردوں، عورتوں اور شہیدوں کے لئے دعائے مغفرت فرما رہے تھے۔([4])

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ رحمت و مغفرت والی اس مُبارک رات کو شب بیداری کرتے ہوئے عبادات اور ذکر و دُعا میں گزاریں اور اپنی مغفرت کی دُعا کےساتھ ساتھ قبرستان جاکر مرحوم مسلمانوں کے لئے بھی دُعائے مغفرت کریں۔

سردارِ امّت امام حسن رضی اللہُ عنہ شبِ براءت کیسے گزارتے؟

حضرت سیِّدُنا طاؤس یَمانی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت سیِّدُنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ سے پندرہ شعبانُ المعظم کی رات(شبِ براءَت میں) عبادت کے متعلق پوچھا تو آپ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا :میں اس رات کے تین حصے کرتا ہوں۔ایک تہائی حصے میں اپنے نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر دُرودِ پاک پڑھتا ہوں، ایک تہائی حصے میں اللہ کریم کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہوں اورآخری تہائی حصے میں اللہ پاک کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے رکوع و سجود کرتا ہوں۔ حضرت سیِّدُنا طاؤس یَمانی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:ایسا کرنے والے کے لئے کیا ثواب ہے؟حضرت سیِّدُنا حسن رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے والد (حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ) سے سنا ہےکہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جو نصف شعبان کی رات کو زندہ کرے گا(یعنی اس رات میں عبادت کرے گا) وہ مُقَرَّبِیْن میں لکھا جائے گا۔([5])

شبِ براءت کا اہتمام فرمانے والے:

حضرت سیِّدُنا خالد بن معدان،حضرت سیِّدُنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم شعبانُ المعظم کی پندرہویں رات اچھا لباس پہنتے، خوشبو لگاتے، سرمہ لگاتے اور اس رات مسجد میں جمع ہوکر عبادت کیا کرتےتھے۔حضرت سیِّدُنا اسحاق بن رَاہُوَیْہ رحمۃُ اللہِ علیہ بھی اسی بات کی تائید کرتے ہیں اوراِس رات مسجدوں میں اکٹھے ہوکرنفلی عبادت کرنے سے متعلق فرماتے ہیں:”یہ کوئی بدعت نہیں ہے۔“ اُن سے یہ بات حضرت سیِّدُناحَرْب کرمانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے نقل فرمائی ہے۔([6])

اہلِ مکّہ کے معمولات:

تیسری صدی ہجری کے بزرگ ابو عبدُاللہ محمدبن اسحاق مکی فاکِہی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جب شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتےاور نماز ادا کرتے، طواف کرتے اور ساری رات جاگ کر صبح تک عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتے،ان میں بعض لوگ 100رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتےنیز اس رات زمزم شریف پیتے، اس سے غسل کرتے اور اسے اپنے مریضوں کے لئے محفوظ کر لیتے اور اِن اعمال کے ذریعے اس رات کی برکتیں سمیٹتے تھے۔([7])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1]جامع صغیر،ص241،حدیث:3952مختصراً۔ابن عساکر، 10/408

[2] در منثور، الدخان، تحت الآیۃ:1 - 5،7 / 402

[3]…شعب الایمان، 3/382، حدیث:3835

[4]…شعب الایمان، 3/384، حدیث:3837 ماخوذا

[5]القول البدیع، ص396

[6] ماذا فی شعبان، ص75

[7] اخبار مکۃ للفاکہی،جزء:3،2/84


Share