فلسطین کی تاریخی و مذہبی حیثیت (قسط:01)

تاریخ کے اوراق

فلسطین کی تاریخی ومذہبی حیثیت(قسط:01)

*مولانا محمد آصف اقبال عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2024ء

فلسطین کی سرزمین دینی اورتاریخی لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اس بابرکت خطے میں حضراتِ انبیائے کرام کے مقدس مزارات کے ساتھ ساتھ دیگر یادگاریں بھی قائم ہیں۔حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دنیا میں تشریف آوری کے بعددورِ فاروق اعظم میں 15ہجری مطابق 636 عیسوی کو یہ علاقہ مسلمانوں نے فتح کیا۔ ([1])اگرچہ اس کی موجودہ جغرافیائی صورتِ حال تبدیل ہوچکی ہے، اس مضمون میں زیادہ تر قدیم فلسطین کے تاریخی احوال اور بیت المُقَدّس کی تاریخ،اہمیت اور فضائل بیان کئے جائیں گے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب لوگ ضروریاتِ زندگی کےسبب ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے تھے۔ ایسی ہی اقوام میں سے کَنعانی قوم کے لوگ 2500 قبل مسیح فلسطین میں آ کر آباد ہوئے، ان کے بعد 2000 قبل مسیح میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام یہاں تشریف لائے۔ امام بیضاوی رحمۃُ اللہِ علیہ روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے حضرت لوط علیہ السّلام اور اپنی زوجہ حضرت سارہ رضی اللہُ عنہا کے ہمراہ حَرّان کی طرف ہجرت فرمائی، پھر وہاں سے ملکِ شام پہنچے اور فلسطین میں قیام فرمایا۔([2]) آپ علیہ السّلام نے اپنے ایک بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو مکۂ مکرمہ میں جبکہ دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السّلام کو بیت المقدس میں آباد کیا،جن کا انتقال وہیں ہوا۔امام قرطبی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں کہ حضرت اسحاق علیہ السّلام کا وصال ارض مقدس (فلسطین) میں ہوا اوروہ اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پاس دفن ہوئے۔([3])حضرت اسحاق علیہ السّلام کی نسل مبارک سے کثرت کے ساتھ حضرات انبیاءِ کرام علیہم السّلام اسی علاقے میں تشریف لائے، یہی وجہ ہے کہ فلسطین کوسر زمین انبیا کہا جاتا ہے اور معراج کی رات اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فلسطین (مسجدِ اقصیٰ) میں تشریف لاکر اس خطے کو چار چاند لگا دئیے۔

حضرت یعقوب علیہ السّلام کے وصال کے بعد جسد اقدس کو مصر سے فلسطین لاکر ان کے والدِ گرامی حضرت اسحاق علیہ السّلام کے قریب دفنایا گیا۔([4])

فلسطین کے مشہور مقامات

کسی خطۂ زمین کی شہرت میں وہاں کی عظیم شخصیات، یادگار مقامات اور مقدس نسبت والی جگہوں کی بنیادی حیثیت ہوتی ہے، سرزمینِ فلسطین کو متعدد انبیاکرام علیہم السّلام اور ان سے نسبت رکھنے والے مقدس مقامات اور متبرک شہروں کی بدولت بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہاں چندشہروں اور مقامات کا ذکرِ خیر کیا جاتا ہے:

(1)القُدس: یہ فلسطین کا سب سے مشہور شہر ہے،اسے بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے اور یروشلم (Jerusalem) بھی۔ امام قَزوینی نے اس شہر کی بہت ساری خوبیاں بیان کی ہیں کہ یہ وہ مشہور شہر ہے جس کی بنیاد حضرات انبیائےکرام علیہم السّلام نے رکھی، یہاں مستقل قیام فرمایا،یہاں وحی کا نزول ہوا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ ”بیت المقدس کو حضرات انبیاء کرام علیہم السّلام نے بنایااور یہاں سکونت اختیار فرمائی،اس شہر میں ایک بالشت جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نبی نے نماز نہ پڑھی ہو یا قیام نہ فرمایا ہو۔“ حضرت سلیمان علیہ السّلام کے زمانہ میں یہ شہر اپنے دور کا خوبصورت ترین شہر تھا، آپ علیہ السّلام نے شاندار تعمیرات کروائیں، اسی شہر میں مسجدِ اقصیٰ ہے جس کو اللہ پاک نے عظمت وشرافت سے نوازا اور قُبَّة الصَّخرة ہے جس سے اسلامی یادیں وابستہ ہیں۔یہاں جابر بادشاہوں نے قبضے بھی کیے اور نقصان بھی پہنچایا۔ حضرت عزیر علیہ السّلام کا قراٰنی واقعہ بھی اسی علاقے میں پیش آیا، یہاں کا موسم معتدل ہے، عمارتیں خوبصورت ترین اور مسجدیں انتہائی صاف ستھری ہیں،یہاں حضور نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بُراق باندھا گیا، حضرت بی بی مریم رضی اللہُ عنہا کا محراب ہے جہاں انہیں بے موسمی پھل عطا ہوتے تھے، حضرت زکریا علیہ السّلام کو یہیں بیٹے یعنی حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی بشارت دی گئی۔([5])یہی وہ شہر ہے جہاں میدانِ محشر قائم ہوگا۔ حضرت سَمُرَہ بن جُندُب رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہم سے ارشاد فرمایا: بیت المقدس میں تمہارا حشر ہو گا پھر قیامت کے دن تمہیں جمع کیا جائے گا۔([6])

(2)الخلیل ( حَبْرون ): فلسطین میں القدس کے بعد یہ شہر سب سے زیادہ مقدس سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں مسجد ابراہیم الخلیل واقع ہے جس میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق علیہما السّلام سمیت آل ابراہیم کی دیگر مقدس ہستیوں کے مزارات موجود ہیں۔([7]) یہاں پہلے ایک غار تھا جو حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السّلام نے 400 مثقال سونے میں خریدا تھا، پہلے حضرت سارہ رضی اللہُ عنہا کی یہاں تدفین ہوئی اور بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو بھی یہیں دفن کیا گیا۔([8])

  (3)بیتُ لَحْم: یہ گاؤں فلسطین کا وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت ہوئی۔ معراج کی رات حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک مقام پر اتر کر نماز پڑھنے کے لئے عرض کی، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں نماز ادا فرمائی، حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے عرض کی : آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی؟ آپ نے بیتِ لحم میں نماز پڑھی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت ہوئی تھی۔([9]) حکیمُ الامّت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی وِلادت کا وقت قریب آیا اور وَضْعِ حمل کے آثار ظاہِر ہوئے تو اس وقت حضرت مریَم رحمۃ اللہ علیہا شہر اِیْلیَا (بیت المقدس)سے6 میل دُور، جنگل میں بیتِ لحم کے مقام پر تشریف لے گئیں۔([10])یہاں کھجور کا ایک خشک دَرَخْت موجود تھا جس کے پتے، شاخیں سب جَھڑ چکے تھے اور صرف تنا باقی رہ گیا تھا،زمانہ تیز سردی کا تھا،حضرت بی بی مریم پاک رحمۃُ اللہ علیہا دَرَخْت کی جڑ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی وِلادت ہوئی۔([11])

(4) غزّہ:یہ فلسطین  میں عسقلان کے مغربی جانب ایک شہر ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جَدِّ امجد ہاشم بن عبد مَناف کا انتقال ہوا اور یہیں آپ کی قبر ہے۔([12]) اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِسے دلہن قرار دیا اور یہاں بسنے والے کو بشارت دی۔ارشاد نبوی ہے: طُوبیٰ لِمَنْ اَسکَنَہٗ اﷲ ُتَعَالٰی اِحدَی العُرُوسَینِ عَسقَلانِ اَوْغَزّۃَ ترجمہ :شادمانی ہے اسے جسے اللہ  پاک دو دلہنوں عسقلا ن یا غزہ میں سے ایک میں بسائے۔([13]) یہ شہر بھی دورِ فاروقِ اعظم میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے فتح کیا تھا،عالمِ اسلام کی عظیم ہستی، ائمہ اربعہ میں سے ایک حضرت امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 150ہجری کواسی علاقے میں ہوئی۔([14])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ تراجم، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])فیضان فاروق اعظم، 2/810

([2])تفسیر بیضاوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: 26،ص399

([3])تفسیرقرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ:132، 1/104

([4])تفسیر خازن،یوسف، تحت الایۃ:100، 3/46

([5])آثارالبلاد واخبارالعباد،ص159-163ماخوذاً

([6])معجم کبیر،7/264، حدیث: 7076

([7])تاريخ الاسلام لذہبی، 35/ 280

([8])قصص الانبیاء لابن کثیر،ص236، 237

([9])سنن کبری للنسائی، ص81، حدیث:448

([10])نور العرفان، پ16، مریَم، تحت الآیہ:22، ص802

([11])حاشیہ جمل،پ16، تحت الآیۃ:23، 5/14

([12])معجم البلدان،4/202

([13])الفردوس بماثور الخطاب،2/450، حدیث:3940-کنزالعمال،12/289، حدیث:35077

([14])آثار البلاد واخبار العباد، ص227-وفیات الاعیان،4/ 23


Share