تذکرۂ صالحین
شانِ امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ
*مولانا ابوالنورراشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء
حضور سرورِکائنات، محمدمصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَوْ كَانَ الْعِلْمُ بِالثُّرَیَّا لَتَنَاوَلَہٗ اُنَاسٌ مِّنْ اَبْنَاءِ فَارس یعنی علم اگر ثُریّا(ستارے) پر مُعلَّق ہوتا تو اَوْلادِ فارس سے کچھ لوگ اسے وہاں سے بھی لے آتے۔ ([1])
عظیم محدث امام ابنِ حجر مکی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیثِ پاک سے امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کی ذات ِ بابرکت مراد ہے۔ اس میں بالکل شک نہیں ہے،کیونکہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے زَمانے میں اَہلِ فارس میں سے کوئی شَخْص علم میں آپ کے رُتبے کو نہ پہنچا، بلکہ آپ کے شاگردوں کےمرتبے تک بھی رَسائی نہ ہوئی اوراس میں سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کُھلا معجزہ بھی ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غیب کی خبر دی،جو ہونے والاتھا بتادیا۔([2])
کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا، سِراجُ الْاُمّہ، کاشِفُ الْغُمَّہ، امامِ اعظم، فَقیہِ اَفْخَم حضرت سیِّدُنا امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابِت رضی اللہُ عنہ کا نامِ نامی نُعمان، والدِ گرامی کا نام ثابِت اور کنیت ابو حنیفہ ہے۔تحقیق کے مطابق آپ رضی اللہُ عنہ 70 ہجری میں عراق کے مشہور شہر ’’کُوفے ‘‘میں پیدا ہوئے او ر 80 سال کی عمر میں 2شَعبانُ الْمُعظَّم 150ہجری میں وفات پائی۔([3])
امام اعظم کا علمی مقام
امام اعظم علیہ الرَّحمہ اپنے زمانے کے اہلِ علم سے بہت ممتاز اور اعلیٰ مقام پر فائز تھے کیونکہ آپ کے پاس صحابہ ٔکرام اور تابعین کا علم جمع تھا۔ آپ کوفہ میں رہتے تھے اور کوفہ شہر کو امیر المؤمنین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہُ عنہ نے آباد فرمایا تھا۔([4]) کوفہ شہر میں 1000 سے زائد صحابۂ کرام آباد تھے جن میں 24 بدری صحابۂ کرام بھی تھے۔([5]) امام مسروق رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام صحابہ کا علم ان چھ ہستیوں کے پاس جمع ہے: عمر فاروق اعظم، علیُّ المرتضیٰ، اُبی بن کعب، زید بن ثابت، ابودرداء اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہم۔ پھر ان چھ کا علم دو کے پاس جمع ہے: حضرت علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا اور حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہما۔([6]) مولا علی شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ اپنے دورِ خلافت میں کوفہ میں جلوہ گر ہوگئے اور حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ کو سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے کوفہ بھیج دیا اور وہاں کے رہنے والوں کے نام خط لکھا جس میں یہ بھی فرمایا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود کو بیتُ المال کا نگران بنایا ہے، پس ان سے علم حاصل کرو اور ان کی اطاعت کرو، میں نے عبداللہ بن مسعود کو تم پر ایثار کیا ہے۔([7]) الغرض رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علم کے امین صحابۂ کرام کا علم جن دو ہستیوں کے پاس جمع تھا وہ دونوں ہستیاں ہی کوفہ میں جلوہ فرما تھیں اور ان دونوں ہستیوں سے سلسلہ دَر سلسلہ علم کا سب سے زیادہ فیض پانے والے وہ عظیم نفوس ہیں کہ جو امام اعظم ابوحنیفہ کے اساتذہ ہیں۔
آپ نے 4000 سے زائد علما و محدّثین کرام سے علمِ دین حاصل کیا۔([8])
امامِ اعظم کی شان و عظمت اور اکابرِ امّت
امامِ اعظم ابوحنیفہ کی علمی جلالت و شان کے پیشِ نظر وقت کے جلیلُ القدر فُقَہا و محدّثین اور اصحابِ جَرح و تعديل نے آپ کی ثقاہت، فقاہت، علمی جلالت کو بیان کیا اور آپ کو منفرد و یکتا اور بے مثال قرار دیا ہے۔
حضرت سیّدنا سفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ کے بھائی کے انتقال پر جب امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ اُن کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لائے تو سفیان ثوری آپ کی تعظیم میں کھڑے ہوگئے، آپ کو گلے لگایا پھر اپنی جگہ بٹھایا اور خود ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ ایک شخص نے آپ کے اس فعل پر اعتراض کیا اور لوگوں کے جانے کے بعد سیدنا سفیانِ ثوری سے کہا کہ آپ نے ابوحنیفہ کے لئے ادب میں اتنا مبالغہ کیوں کیا؟ حضرت سیّدنا سفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: اس شخص کا ایک عظیم علمی مقام ہے، پس اگر میں اُن کے علم کی وجہ سے نہ کھڑا ہوتا تو ان کی عمر کی وجہ سے کھڑا ہوتا، اوراگر ان کی عمر کی وجہ سے کھڑا نہ ہوتا تو ان کی فقاہت کی تعظیم میں کھڑا ہوتا اور اگر ان کی فقاہت کے لئے نہ کھڑا ہوتا تو ان کے تقویٰ و پرہیز گاری کے باعث کھڑا ہوتا۔([9])
عظیم محدث و فقیہ حضرت سیّدنا خلف بن ایوب رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اللہ رب العزّت کی بارگاہ سے ”علم“ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچا، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے صحابہ کو ملا، صحابۂ کرام سے تابعین کو اور تابعین سے علم سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کو ملا، پس جو چاہے (اللہ کی اس تقسیم پر) راضی رہے اور جو چاہے بگڑتا پھرے۔([10])
فقیہہ کا کیا مقام ہے؟
عظيم محدث امام احمدبن حنبل رحمۃُ اللہِ علیہ نے فقیہہ کے لئے چارلاکھ احادیث یاد ہونے کا فرمایا ہے([11])جبکہ کثیر محدثین نے امامِ اعظم علیہ الرَّحمہ کی فقیہانہ جلالت کی تعریف کی اور آپ کوزمانے بھر کا سب سے بڑا اور عظیم فقیہہ فرمایا ہے۔
امامِ اعظم ابوحنیفہ تابعی ہیں
فقہ کے ائمہ اربعہ میں سے صرف آپ ہی کو تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تابعی وہ عظیم خوش نصیب ہوتا ہے ’’ جس نے ایمان کی حالت میں کسی صَحابی رضی اللہُ عنہ سے ملاقات کی ہو اور ایمان پر اُس کا خاتمہ ہوا ہو۔‘‘([12]) آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی ایک جماعت سے مُلاقات کا شَرَف حاصل فرمایا، جن میں سے حضرت سیّدنا انس بن مالک، حضرت سیّدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ، حضرت سیّدنا سہل بن سعد ساعدی اور حضرت سیّدنا ابوالطفیل عامر بن واصلہ علیہمُ الرّضوان کا نام سَرِفہرست ہے۔([13])
صحابیِ رسول کی زیارت اور سماعِ حدیث
امامِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہفرماتےہیں: میں نے والدِگرامی (حضرت ثابت رحمۃُ اللہِ علیہ)کے ساتھ حج کیا، اس دوران میں نے ایک شیخ کو دیکھا جن کے اِرد گِرد لو گ جمع تھے،میں نے والدِ محترم سے عرض کی:یہ ہستی کون ہے؟ انھوں نے بتایا:یہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن حارث بن جَزْء رضی اللہُ عنہ ہیں۔ میں نے عرض کی: ان کے پاس کون سی چیز ہے؟ فرمایا: ان کے پاس نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنی ہوئی احادیث ِمبارکہ ہیں۔ یہ سُن کر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ آگے بڑھے اورصحابیِ رسول سے براہِ راست ایک حدیث پاک سننے کا شرف حاصل کیا۔([14])
اللہ ربُّ العزّت کی امامِ اعظم ابوحنیفہ پر کروڑوں رحمتیں ہوں اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments