رب کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے9 خصائص
(1)قیامت
تک باقی رہنے والا معجزہ دیگر انبیائے کرام علیہم الصَّلوٰۃ والسَّلام کے معجزات ختم ہوگئے لیکن
قراٰنِ کریم کی صورت میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا معجزہ قیامت تک باقی رہے گا۔ (انموذج اللبیب،ص44)
(2)قراٰنِ کریم میں اعضائے
مقدسہ کا تذکرہ اللہ
پاک نے
قراٰنِ کریم میں اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مختلف جسمانی اعضاء کا
ذکرِ خیر فرمایا ہے۔(کشف الغمۃ،ج2،ص54، زرقانی علی المواھب،ج 7،ص192)
مبارک دل: ( مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱)) ترجمۂ کنز الایمان: دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ (پ27،النجم :11)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ(۱۹۳)) عَلٰى قَلْبِكَ ترجمۂ کنزالایمان: اسے روح الامین لے کر اترا تمہارے دل پر۔(پ19، الشعراء:193، 194)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) مُقدّس زبان: ( فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۵۸)) ترجمۂ کنزالایمان: تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کیا کہ وہ سمجھیں۔ (پ25، الدخان:58)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) پُرنور آنکھیں(مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷))ترجمۂ کنزالایمان: آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ (پ27، النجم:17)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) (لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ ) ترجمۂ کنز الایمان:اپنی آنکھ اٹھاکر اس چیز کو نہ دیکھو جو ہم نے ان کے کچھ جوڑوں کو برتنے کو دی۔(پ14،الحجر:88)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) چہرۂ اقدس(قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ ) ترجمۂ کنز الایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔ (پ2، البقرۃ: 144)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)مبارک ہاتھ اورگردن شریف(وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ )ترجمۂ کنز الایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ۔(پ15، بنی اسرائیل: 29)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نورانی سینہ اور مقدّس پیٹھ(اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَۙ(۲) الَّذِیْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَۙ(۳))ترجمۂ کنزالایمان: کیا ہم نے تمہارا سینہ کشادہ نہ کیا اور تم پر سے تمہارا وہ بوجھ اتارلیا جس نے تمہاری پیٹھ توڑی تھی۔ (پ30، الم نشرح:1 تا3)(ان آیتوں کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
کٓ گیسو ہٰ دہن یٰ ابرو آنکھیں عٓ صٓ
كٓهٰیٰعٓصٓ اُن کا ہے چہرہ نور کا
(3)قراٰنِ کریم کی حفاظت گزشتہ انبیائے کرام علیہم الصَّلوٰۃ والسَّلام پر نازل ہونے والی آسمانی کتابوں میں ان کی امّتوں نے تحریف کردی تھی لیکن رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والے قراٰن کریم میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ پاک نے خود لیا ہے۔ (انموذج اللبیب، ص38، بہارِ شریعت،ج1،ص30) اللہ کریم کا فرمانِ عظیم ہے: (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹))ترجمۂ کنز الایمان: بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔(پ14،الحجر:9)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حکایت:
مامون الرشید کی مجلس میں ایک یہودی آیا اور اس نے بڑی عمدہ گفتگو کی۔ مامون الرشید
نے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا۔ ایک سال بعد وہ دوبارہ آیا تو
مسلمان ہو چکا تھا اور اس نے فِقْہ کے موضوع پر شاندار کلام کیا۔ قبولِ اسلام کا
سبب پوچھنے پر اس نے جواب دیا: پچھلے سال جب میں آپ کی مجلس سے اٹھ کر گیا تو میں
نے ان مذاہب کا امتحان لینے کا ارادہ کیا۔ میں نے تورات، انجیل اور قراٰنِ کریم کے
تین تین نسخے لکھے جن میں اپنی طرف سے کمی بیشی کردی۔ یہ نسخے لے کر میں یہودیوں
کے مَعْبَد اور عیسائیوں کے گرجے میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ نسخے خرید لئے۔ جب
میں قراٰن پاک کے تحریف شدہ نسخے لے کر اسلامی کُتُب خانے میں گیا تو انہوں نے
بغور ان کا مطالعہ کیا اور جب وہ میری کی ہوئی کمی زیادتی پر مطلع ہوئے تو انہوں
نے وہ نسخے مجھے واپس کردئیے اور خریدنے سے انکار کر دیا۔ اس سے میری سمجھ میں آ
گیا کہ یہ کتاب تبدیلی سے محفوظ ہے، اس وجہ سے میں نے اسلام قبول کرلیا۔ (تفسیرقرطبی،پ14،
جز:10، ، الحجر، تحت الآیۃ:9،ج5،ص6 ملخصاً)
مُبَدَّل ہوئے انبیاء کے مَصاحِف
مُحَرَّف نہ ہوگا صحیفہ
تمہارا
(4)وحی
کی تمام صورتوں کے ذریعے کلام کیا گیا رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ وحی کی تمام صورتوں
کے ذریعے کلام کیا گیا۔([1]) ( زرقانی علی المواھب،ج
7،ص256)
(5)قراٰنِ کریم میں نام سے خطاب نہ فرمایا اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں دیگر انبیائے کرام علیہم الصَّلوٰۃ والسَّلام کو ان کے ناموں سے مخاطب فرمایا مثلاً: یٰۤاٰدَمُ ، یٰنُوْحُ ، یٰۤاِبْرٰهِیْمُ، یٰدَاوٗدُ ،یٰزَكَرِیَّاۤ، یٰیَحْیٰى ، یٰمُوْسٰى ، لیکن اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نام سے نہیں بلکہ یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ، یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ،یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ اور یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ و غیرہ القابات سے خطاب فرمایا۔(مواھبِ لدنیہ،ج 2،ص286)
(6)اُمِّی ہونے کے باوجود کتاب عطا کی گئی سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ”اُمِّی“ ہیں یعنی آپ نےدنیا میں کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا، اس کے باوجود آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک ایسی کتاب لائے جس میں اَوّلین و آخرین کے عُلوم موجود ہیں۔(انموذج اللبیب، ص37،صراط الجنان،ج3،ص448)
ایسا اُمّی کس لئے منّت کشِ استاد ہو
کیاکفایت اس کواِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ نہیں
(7)قسم کے ساتھ رسالت کا بیان اللہ کریم نے قسم کے ساتھ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رسول ہونے کا بیان فرمایا۔(انموذج اللبیب،ص53) فرمانِ خداوندی ہے: (یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳) )ترجمۂ کنزالعرفان:یٰسٓ حکمت والے قرآن کی قسم بیشک تم رسولوں میں سے ہو۔ (پ22، یٰس:1، 2، 3)(ان آیتوں کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(8)جان ،شہر اور زمانے کی قسم اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدّس زندگی، عظمت والے شہر اور مبارک زمانے کی قسم ذکر فرمائی۔(زرقانی علی المواھب،ج 7،ص256) جان کی قسم(لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۷۲))ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب تمہاری جان کی قسم بیشک وہ اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں۔ (پ14،الحجر: 72)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) شہر کی قسم (لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲))ترجمۂ کنز الایمان:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔(پ30، البلد: 1، 2 )(اس آیتوں کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) زمانے کی قسم( وَ الْعَصْرِۙ(۱)) ترجمۂ کنزالایمان: اس زمانۂ محبوب کی قسم۔(پ30،العصر:1)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
وَ الْعَصْرِ ہے
تیرے زماں کی قسم
لَعَمْرُكَ ہے تِری جاں کی قسم
الْبَلَدِ ہے
تیرے مکاں کی قسم
تِرے شہر کی عظمت کیا کہنا
(9)پتھر
پر قدم کا نشان بن جاتا رسولِ
کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدمِ مبارک کا یہ اعجاز
تھا کہ پتھر اس کے نیچے نرم ہوجاتا اور پتھر پر نشان بن جاتا تھا۔( زرقانی علی المواھب،ج
7،ص194، مدارج النبوۃ،ج1،ص117)
ہائے اس پتھر سے اس سینہ کی قسمت پھوڑیے
بے تکلف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭۔۔۔ ماہنامہ
فیضانِ مدینہ،باب المدینہ کراچی
Comments