کار کرایہ پر لی جائے
تو معاہدہ میں کیا باتیں پیشِ نظر رکھی جائیں؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے
میں کہ ہمارے یہاں کار کرائے(Rent) پر دی جاتی ہے ایک گھنٹے کے لئے یا پورے دن کے لئے، ایسا کرنا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: فی نفسہٖ کار کو کرائے پر دینے اور لینے میں
شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ اجارے کے شرعی تقاضے پورے ہوں مثلاً اُجرت طے کرلی جائے،
جتنے وقت کے لئے گاڑی کرایہ پر لینی ہے وہ وقت بیان کردیا جائےیا جس جگہ جانا ہے مثلاً
شہر میں یا شہر سے باہر وہ بیان کردی جائے۔ نیز جن وجوہات کی بناء پر جھگڑا ہوسکتا
ہے وہ بھی طے کرلینی ضروری ہیں مثلا ً پیٹرول کون ڈلوائے گا اور ڈرائیور کو کھانا
کون کھلائےگا وغیرہ وغیرہ ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
چندے کی بچ جانے والی رقم سے پرائز بانڈ خریدنا کیسا؟
سوال: بعض اوقات مخصوص مد میں چندہ جمع کرتے ہیں جس
میں سے کچھ چندہ بچ جاتا ہے کیا ان پیسوں سے ہم پرائز بانڈ خرید سکتے ہیں؟
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: جس مد کے لئے چندہ لیا گیا وہ کام اگر پورا
ہوجائے
اور چندہ بچ جائے یا وہ کام نہ ہوسکے تو
دوبارہ چندہ دینے والوں کی طرف رجوع کرناہوگا اوریہ پیسے ان کو واپس دئیے جائیں گے کیونکہ چندہ، چندہ
دینے والوں کی مِلک پر ہی باقی رہتا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چندہ لیتے وقت ہی
صراحت کر دیں کہ اگر چندے سے پیسے بچ گئے
تو اگلی مرتبہ اسی طرح کے کام میں خرچ کر دیں گے،اور پھر بچ گیا تو اگلی مرتبہ اسی
طرح کے کام میں خرچ کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ چندے کی رقم امانت ہوتی ہے اسے
معروف اندازمیں ہی خرچ کیا جا سکتا ہے، اس رقم سے پرائز بانڈ نہیں خریدسکتے کیونکہ
اس کا عرف نہیں ہے۔
اعلٰیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد
رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں:”چندہ جس کام کے لئے کیا
گیا ہو جب اس کے بعد بچے تو وہ انہیں کی مِلک ہے جنہوں نے چندہ دیا ہے، کما حققناہ فی فتاوٰنا(جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے فتاویٰ میں کی ہے) ان کو حصۂ رصد واپس دیا جائے یا جس کام میں وہ کہیں
صرف کیا جائے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 16،ص247)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جو چیز دکاندار کے پاس
نہیں ہے اس کی خرید و فروخت
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے
میں کہ کوئی شخص پرندے کی ڈیمانڈ کرتا ہے لیکن وہ پرندہ دکاندار کے پاس نہیں ہے تو
دکاندار کہتا ہے کہ اگر آپ کہو تو پچاس ہزار روپے میں منگوا کر دیتا
ہوں۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ اس طرح خریداری کرنا کیسا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: جو چیز ملکیت میں نہ ہو اسے بیچنا جائز
نہیں۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب تک دکاندار پرندہ خرید نہ لے اس وقت تک آگے اس
کا سودا نہیں کرسکتا۔ہاں اگر سودا نہ کیا جائے بلکہ محض وعدہ کرلیا جائے تو جائز
ہے کہ میں آپ کو لادوں گا اور دونوں
سمجھتے ہوں کہ یہ وعدہ ہورہا ہے ڈیل(Deal) نہیں ہورہی، نیز اس وعدے کے نتائج سے بھی دونوں واقف ہوں کہ وعدہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خریداری کی طرح
لازم ہوگیا ورنہ وعدے اور خریداری میں فرق
نہیں رہے گا بلکہ وعدے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بناء پر اس کا ارادہ بدل جائے تو اس
کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چیز نہ لے۔وعدہ کرنے کے بعد دکاندار پہلے وہ مال
خود خرید کر لے آئے پھر گاہک کو بیچے۔ ایک صورت یہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ
دکاندار بطورِ بروکر اپنا معاوضہ لے مثلاً گاہک سے یوں طے کرلے کہ پرندہ جتنے کا بھی آئے گا مجھے اس پر مثلاً دو سو
روپے کمیشن کے طور پر دے دینا تو اس صورت میں پرندہ دکاندار کی ملکیت میں آنا بھی ضروری نہیں ۔
لیکن یہ ضروری ہے کہ دکاندار نے جس قیمت میں خریدا ہے وہی آگے بتانا ہوگی کیونکہ
کمیشن والی صورت میں دکانداراصل خریدار کا
وکیل اور نمائندہ بن کرخرید رہا ہے۔ یونہی یہ مسئلہ بھی پیشِ نظر رہے کہ بروکری یا
کمیشن میں فریقین رقم کے تعین کرنے میں آزاد نہیں ہوتے بلکہ عُرف کے مطابق اس قسم
کے کام کی جو بروکری بنتی ہے صرف وہی مقرر کر سکتے ہیں۔وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
پان، بیڑی، سگریٹ بیچنا
کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے
بارے میں کہ جو لوگ پان ،بیڑی ،سگریٹ وغیرہ بیچتے ہیں کیا ان کے لئے ان پیسوں سے
حج کرنا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پان کھانا جائز ہے اور سگریٹ بیڑی پینا بھی
جائز
ہے، گناہ نہیں۔([1]) ان کو بیچنے میں بھی حرج
نہیں اور اس کا نفع بھی حلال ہے۔ لہٰذا اس رقم سے حج وغیرہ بھی کرسکتے ہیں۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے:”پان کھاناجائز ہے اور اتنا
چونا بھی کہ ضررنہ کرے اور اتنا تمباکو بھی کہ حواس پر اثر نہ آئے۔“(فتاویٰ رضویہ ،ج24،ص558)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
کمیٹی کی جمع شدہ رقم استعمال کرناکیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے
بارے میں کہ مارکیٹ میں کمیٹی ڈالتے ہیں، جس بندے کے پاس پیسے جمع ہوتے ہیں کیا وہ
انہیں استعمال کر سکتا ہے یا نہیں ؟
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: بیسی یا کمیٹی کے پیسے جمع کرنے والا اگر کمیٹی
جمع کر کے وقتِ ادائیگی کے دوران خرچ کرتا
ہے تو زیادہ تر علاقوں میں عرف یہی ہے کہ اس کے رقم خرچ کرنے پر شرکا کو اعتراض
نہیں ہوتا اور یہ رقم قرض کے حکم میں ہےاور جب کوئی رقم قرض کے حکم میں ہو تو اسے
خرچ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اس رقم کو خرچ کیا جا سکتا ہے۔مگر جب
دینے کا وقت آئے گا تو اسے دینے ہوں گے، ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوگی کہ وقت پر جس
کی کمیٹی کھلی ہے اس کو رقم کی ادائیگی نہ
کرے۔البتہ اگر کسی جگہ عرف یہ ہو کہ کمیٹی ڈالنے والا رقم خرچ نہیں کر سکتا تو پھر
یہ رقم امانت کہلائے گی اور خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭۔۔۔دارالافتاءاہل سنّت نور
العرفان،کھارادر ،باب المدینہ کراچی
[1]۔۔۔البتہ ان کے طبّی نقصانات بھی ہیں، تفصیل
جاننے کے لئے امیرِ اہلِ سنّتدَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا
رسالہ ”پان گٹکا“ پڑھئے۔
Comments