آپ کے تأثرات/ نماز میں تاخیر سے شامل ہونے کی صورت میں مقتدی پرہاتھ باندھنا ضروری ہے یا نہیں؟

علمائےکرام اور دیگر شخصیات کے تأثرات

(1)مفتی خلیل احمدقادری سلطانی صاحب (صدرمدرّس و مفتی فریدی دارُ العُلوم مرکزی عید گاہ، جام پورضلع راجن پور): تبلیغِ اسلام کی ایک کڑی ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ بھی ہے۔ بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی رسالہ ہے، ہر گھر اور دکان کی ضرورت ہے۔ تمام اہلِ اسلام سے گزارش ہے کہ اس ماہنامہ کو خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔

(2)مولانامحمد طاہر الحسن باروی صاحب(ناظمِ اعلیٰ جامعہ عربیہ انوار الاسلام، مظفر گڑھ): ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ نظر سے گزرا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ علمی، تحقیقی اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق پایا۔دعا ہے کہ اللہ ربّ العزّت دعوتِ اسلامی کو مزید ترقیاں عطا فرمائے۔ اٰمین

(3)قاری صفدر عطّاری(مہتمم جامعہ نور القراٰن، غلہ منڈی روڈ، بہاولپور): ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ پڑھنے سے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، صحابۂ کرام، اہلِ بیت اور اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ انسان اگر اس کا مطالعہ کرے تو اس کا عقیدہ مضبوط ہوگا۔ اس کو پڑھنے کے ساتھ طِبّی نسخے بھی ملتے ہیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ ماہنامہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین

اسلامی بھائیوں کے تأثرات

(4)دعوتِ اسلامی کا بہت شکر گزار ہوں کہ ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ جیسی نعمت عطا کی۔ مجھ جیسے طلبہ اس سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ (حافظ غلام محی الدین سیالوی، متعلم جامعہ نعیمیہ قمر الاسلام،)

(5)”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“اپنی بہاریں لُٹا رہا ہے۔ اس کے تمام ہی سلسلے اچھے ہوتے ہیں مگر مجھے مَدَنی کلینک بہت اچھا لگتاہےکہ اس سے علاج سیکھنے کو ملتا ہے۔(راشد لطیف، لسبیلہ بلوچستان)

(6)دعوتِ اسلامی کی مجلس خُدّامُ المَساجد کے تحت ہونے والے مساجد اور جائے نمازوں کے افتتاح کی مدنی خبریں پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتاہے۔ (رفیع احمد، نیریاں شریف ، کشمیر)

مَدَنی مُنّو ں اور مُنّیوں کے تأثرات

(7)رجب 1440ھ میں سلسلہ ”روشن مستقبل“ کا مضمون ”نماز کی کنجی“ پڑھا تو پتا چلا میں صحیح وضو نہیں کرتاتھا، اب میں نے درست وضو کرنا سیکھ لیا ہے۔(مقبول،حب چوکی بلوچستان)

(8)مجھے سوال و جواب والے تمام ہی سلسلے اچھے لگتے ہیں۔ خصوصاًسلسلہ ”کیا آپ جانتے ہیں؟“ شوق سے پڑھتاہوں کہ ایک دو لفظ میں جواب ہوتاہے۔ (عادل، کاٹھور، باب الاسلام سندھ)

اسلامی بہنوں کے تأثرات

(9)شعبانُ المُعظّم1440ھ کے شمارے میں کالم ”بخشش سے محروم رہنے والے“ پڑھا، فکرانگیز تھا۔ اللہکریم ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے سے بچائے۔ اٰمین (بنتِ نیاز احمد، وزیرآباد)

(10)”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کے مضامین ہر ماہ پڑھنے کی سعادت ملتی رہتی ہے۔ یہ ماہنامہ موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور سمجھنے کے لحاظ سے بھی قدرے آسان ہے۔اللہ پاک اس اسلامی میگزین کو مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔اٰمین(امِّ فرحان،اورنگی ٹاؤن،باب المدینہ کراچی)


Share

آپ کے تأثرات/ نماز میں تاخیر سے شامل ہونے کی صورت میں مقتدی پرہاتھ باندھنا ضروری ہے یا نہیں؟

نماز میں تاخیر سے شامل ہونے کی صورت

میں مقتدی پرہاتھ باندھنا ضروری ہے یا نہیں؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ جو شخص نماز میں لیٹ پہنچے اور امام رکوع یا سجدے یا قعدے میں ہو تو امام کے ساتھ ملنے کے لئے تکبیرِ تحریمہ کہنے کے بعد مقتدی کو قیام میں ہاتھ باندھنا ضروری ہے یا جس رکن میں امام ہے، رکوع یا سجود یا قعدہ وغیرہ اس میں فوراًہی چلا جائے؟ اور اس صورت میں ثناء پڑھے گا یا نہیں؟ ( سائل: شاہنواز(چنیوٹ))

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر امام رکوع یا پہلے سجدہ میں ہو اور معلوم ہو کہ ثناء پڑھ کر رکوع یا سجدہ میں مل سکتا ہے تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھ کر ثناء پڑھے پھر رکوع یا سجدہ میں شامل ہو۔تاکہ ثناء پڑھنے کی فضیلت بھی مل جائے اور رکوع یا سجود میں بھی شامل ہوجائے اور اگر معلوم ہو کہ ثناء پڑھنے کی صورت میں امام کے ساتھ رکوع یا سجدہ میں نہیں مل سکے گا تو سیدھا کھڑے کھڑے تکبیرِ تحریمہ کہے اس کے بعد بغیر ہاتھ باندھے فوراً دوسری تکبیر کہتا ہوا امام کے ساتھ رکوع یا سجدہ میں شامل ہو جائے کیونکہ ثناء پڑھنے کے مقابلےمیں، رکوع میں شامل ہو کر تکبیر ِاولٰی کے ساتھ جماعت کی فضیلت حاصل کرنا زیادہ بہتر ہے۔اسی طرح دونوں سجدوں میں امام کے ساتھ شامل ہونا ثناء پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے۔ البتّہ اگر امام دوسرے سجدے یا قعدہ میں ہو تو تکبیر ِتحریمہ کے بعد ہاتھ نہ باندھے اور بغیر ثناء پڑھے دوسرے سجدہ یا قعدہ میں امام کے ساتھ شامل ہوجائے تاکہ امام کے ساتھ زیادہ شریک ہونے کی فضیلت حاصل ہوسکے۔

تنبیہ بعض لوگ تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے جلد بازی میں امام کے ساتھ ملنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر کوئی تکبیرِ تحریمہ کہتے ہوئے اتنا جھک گیا کہ ہاتھ پھیلائے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں، تو اس صورت میں نماز شروع ہی نہیں ہوگی کیونکہ تکبیرِ تحریمہ کا قیام کی حالت میں کہنا فرض ہے لہٰذا اس صورت میں نماز کو دوبارہ ادا کرنا ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّیاللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبـــــــــــــــــــــہ

مفتی فضیل رضاعطّاری

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اولاد

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ حضورِ اکرم صلَّیاللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تمام شہزادیاں،  بی بی خدیجۃُ الکبریٰ رضیاللہ عنہا سے تھیں یا اور بھی ازواجِ مطہّرات سے تھیں؟(سائل:اظہار علی نقشبندی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حضورِ اکرم، شاہِ بنی آدم صلَّیاللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چار شہزادیاں (حضرت زینب،حضرت رقیّہ،حضرت اُمَّ کلثوم اور خاتونِ جنّت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہنَّ) ہیں اورمشہور وصحیح قول کے مطابق تین شہزادے ہیں (حضرت ابراہیم، حضرت قاسم اور حضرت عبد اللہ انہی کا لقب طیّب و طاہر ہے) حضرت ابراہیم کےعلاوہ تمام شہزادے وشہزادیوں کی والدۂ ماجدہ ، اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجۃُ الکبریٰرضیاللہعنہا ہیں جبکہ  حضرت ابراہیم کی والدۂ محترمہ حضرت ماریہ قبطیہرضی اللہ عنہا ہیں جن کا شمار نبی کریم صلَّی اللہعلیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کنیزوں میں ہوتا ہے۔ سبل الھدیٰ والرّشاد میں ہے: ”وکلہن من خدیجۃ بنت خویلد الا ابراہیم فمن ماریۃ القبطیۃیعنی نبیِّ کریم صلَّیاللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تما م اولاد مبارک حضرت خدیجہ بنتِ خویلد رضی اللہ عنہا سے تھی، سوائے حضرت ابراہیم کے، یہ ماریہ قبطیہ سے تھے۔(سبل الھدیٰ والرشاد،ج 11،ص16)مراٰۃ المناجیح میں ہے”ساری اولاد حضرت خدیجۃُ الکبریٰ کے بطن شریف سے تھی سوائے حضرت ابراہیم کے کہ وہ جنابِ ماریہ قبطیہ کے بطن شریف سے  تھے۔“(مراٰۃ المناجیح،ج8،ص82)

وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مُجِیبمولانا جمیل احمد غوری عطّاری مُصَدِّقمفتی فضیل رضا عطّاری


Share