غلط شارٹ کٹ

دین ِاسلام میں ہربھلےکام کی ترغیب اورپذیرائی ہے  جبکہ ہر برےکام مسلمانوں کو روکاگیاہے، شارٹ کٹ یعنی مختصرراستہ مطلقاًبرانہیں ہوتا، بسااوقات اِختِصار(مختصر کرنا) شریعت کو محبوب بھی ہوتاہے ، البتہ ہمارے زمانے کےلوگوں بالخصوص نوجوانوں میں زندگی کےکئی مَراحِل پرغلط شارٹ کٹ اپنانے کی خرابی عام ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سےکئی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں جنم لےرہی ہیں، جبکہ کئی مقامات پردینی حدود  واحکامات کو بھی پامال کیا جاتا اور ناجائز و حرام کاموں کا ارتکاب ہوتا ہے مثلاً:

امیر بننے کےلئےشارٹ کٹ امیربننےکےلئے ہمارے پچھلے اور پرانے لوگوں نے جو محنتیں کی ہیں،طریقۂ کار اختیار کیا ہے اور اپنی عمر کا ایک حصہ اس کوشش میں گزاراہے، آج کل نوجوانوں کی ایک تعداد ہے جو اس پورے پروسیجر (Procedure) کو اپنانے، محنت کرنے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کے بجائے کسی ایسے راستےکی تلاش میں ہے جس سے وہ جلد سےجلد امیر ہوجائے، لہٰذاعام طور پر وہ درج ذیل ناجائز ذرائع میں سےکوئی ذریعہ اپناتے ہیں: (1)جلد مالدار بننے کے ارادے سے بیرونِ ملک کا غیرقانونی (illlegal) سفر کرنا (2) کرپشن یعنی بدعنوانی کرنا اور رشوت لینا (3)نشہ آور اَشیاءبیچنایاان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا (4)چوری اور ڈکیتی کرنا (5)جواکھیلنا (6)جُوئے کی پرچی لینا (7)بینکوں  کے پیسوں کے معاملے میں گھپلے کرنا، یہ سب امیر بننے کے غلط اور تباہ کن شارٹ کٹ ہیں، نیز جلد مالدار بننے کیلئے دنیا میںان کے علاوہ بھی کوئی  غلط راستہ اپنایاجاتاہو توکوئی بعید(دور)نہیں۔

بڑی پوسٹ حاصل کرنے کےلئے شارٹ کٹ دفاتِرمیں کام کرنے والے ملازمین  کی آمدنی عموماً نارمل ہوتی ہے، بَسااوقات وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اِنکم بڑھےجبکہ ان کی اتنی قابلیت و صلاحیت نہیں ہوتی، لہٰذا وہ اپنے مقصد کو پانے کیلئے مختلف غلط شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہےکہ ناجائز طور پر اپنے سے اوپر والے کی جگہ لینے کی کوشش کرنا، اس کے لئے اپنے سینیئرز کی برائیاں اور بےجا شکایتیں بڑے آفیسرسے کرتے ہیں،  بَسااوقات یہ کام اپنے سینیئرز سے حسد اور اَن بَن(ناراضی) کی بنا پربھی کیا جاتا ہے، اسی طرح  کبھی مذکورہ دونوں صورتیں نہیں ہوتیں بلکہ مقصد صرف عہدے کا ہی حصول ہوتا ہے، جس کےلئے سینیئرز کی عزّت کو اُچھالاجاتاہے۔ یوں عام طورپراس طرح کے افراد اپنے حسد اورکینے کے باعث یا پھر مَنْصَب و شُہرت کے حصول کی خاطر جھوٹ، تہمت اور غیبت وغیرہ جیسے ناجائزو حرام کاموں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان  صورتوں کومنصب اور عہدے کاغصب(چھیننا) بھی کہا جاسکتا ہے جو کہ مال کے غصب سے زیادہ بُرا ہے(حالانکہ مال کاغصب ناجائز و حرام ہے تو پھر عہدے کے غصب کےاُخرَوِی نتائج کس قدربھیانک ہوں گےاس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے)۔ (الزواجرعن اقتراف الکبائر،ج 1،ص314ملخصاً)  ناجائز طور پر عہدے کے حصول کی دوسری صورت یہ ہے کہ جب صرف بےجا شکایتوں کے ذریعے بڑی پوسٹ  کا حصول نہیں ہوپاتا توبسا اوقات ”رشوت دینے“ کے بُرے شارٹ کٹ کا سہارا لیا جاتا ہے، حالانکہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشوت دینے والے، لینے والے اوران دونوں کے درمیان معاملہ کروانے والے (دَلّال)پر لعنت فرمائی ہے۔(مسند احمد،ج 8،ص327، حدیث: 22462) اور کبھی غلط شارٹ کٹ کے ذریعے عہدے کے حصول کی تیسری صورت بھی ہوتی ہے،  وہ یہ ہے کہ ایک غیرِ قابل وغیرِ مستحق شخص رشتے داری یا محبت كی بنا پرکوئی عہدہ حاصل  کرلیتاہے  جبکہ کوئی شخص محض رشتہ داری یا محبت کا لحاظ کرتے ہوئے کسی کوعہدہ دےگا تووہ یقیناً کئی ایسی باتوں کو بھی نظر انداز کردے گا جو اس عہدے والے کے لئے ضروری ہوتی ہیں، نتیجۃً جس کو عہدہ دیا  جائے گا وہ اس عہدے کی ذمہ داریوں  کو اچھے طریقے سے نِبھا نہیں سکے گا۔ اسی وجہ سے امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: مَنِِ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا لِمَوَدَّةٍ اَوْ لِقَرَابَةٍ لَايَسْتَعْمِلْه اِلَّا لِذٰلِكَ فَقَدْ خَانَ اللہَ وَرَسُوْلَه وَالْمُؤْمِنِيْنَ یعنی جس نے کسی شخص کو محبت یا رشتہ داری کی وجہ سے کوئی عہدہ دیا اور کوئی وجہ عہدہ دینے کی نہ تھی تو اس نے   اللہ پاک ، اس کے رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور مومنوں سے خیانت کی۔(کنزالعمال، جز5،ج 3،ص303، حدیث:14301)

 شارٹ کٹ کےذریعے عہدے کے حصول کی مذکورہ تینوں صورتیں تب ہی ممکن ہوتی ہیں جبکہ سسٹم میں بَدعُنوان اور کرپٹ لوگ شامل ہوں، جنہیں بجائے قابلیت وصلاحیت کےصرف مال ودولت، لحاظِ رشتہ ومحبت سےہی غرض ہو، ایسے بَدعُنوان لوگ دَرحقیقت اداروں اورملک وملّت کی عزّت و عظمت کونقصان پہنچانے، باصلاحیت افراد کی صلاحیتوں کاخون کرنے، ان کی دنیااوراپنی آخرت برباد کرنےکے علاوہ کوئی نمایاں کام نہیں کررہے ہوتے۔([1])

جلدی پہنچنے  کیلئے شارٹ کٹ عموماً ہر ملک میں لوگوں کی جان ومال اور عزّت کی حفاظت کے لئے کچھ نہ کچھ قوانین بنے ہوتےہیں، ان پرعمل ہرایک کیلئے فائدہ مَند ہوتا ہے، ان ہی میں سے ٹریفک کے اچھے قوانین بھی ہیں،ان قوانین پر عمل نہ کرکے شارٹ کٹ کرتے ہوئے بعض لوگ  اپنی  بلکہ دوسروں کی بھی جان ومال اورعزت کوداؤ پر لگادیتے ہیں، مثلاً (1)روڈ پارکرنے کے لئے پُل یا زیبرا کراسنگ کا استعمال  نہ کرنا (2)یوٹرن دور ہونے یا مطلوبہ مقام رونگ وے سے قریب ہونے کی وجہ سے رونگ وے استعمال کرنا (3)ٹریفک جام کی صورت میں  فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل چڑھا دینا (4)یا پھر عام صورتِ حال ہی میں نارمل راستہ اختیار کرنے کے بجائے کسی ایسی راہ کو اختیار کرنا کہ جو مزید مصیبت میں ڈال دے مثلاً: وہ تنگ ہویا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو وغیرہ۔ البتہ اگر شارٹ کٹ قانون تُڑواتا یاجان و مال اور عزّت کو خطرے میں نہ  ڈالتا ہو تو اسے استعمال کرنےمیں کوئی حرج نہیں۔غلط شارٹ کٹ کی سوچ کہاں سےآئی ؟ ہمارے معاشرے میں جتنےبھی غلط شارٹ کٹ اپنائے جاتے ہیں ان کی ایجادمیں ایک بہت بڑا ہاتھ فلموں، ڈراموں کابھی ہے، اگران سے اور اس طرح کے دیگر دینِ اسلام سے دور کرنے والے کاموں سے خود کو اور اپنی اولادکونہ بچایاگیا توآئندہ نہ جانے کیسی کیسی بھیانک خرابیاں اس معاشرےمیں جنم لے سکتی ہیں۔

 میری تمام عاشقانِ رسول سےفریاد ہے کہ ہر معاملے میں غلط شارٹ کٹ اپنانےسےخودبھی بچئے اور دوسروں کو بھی بچائیے، نیز غلط شارٹ کٹ کی سوچ کو پروان چڑھانے والے اسباب کو ختم کیجئے، مدنی چینل خود بھی دیکھئے دوسروں کوبھی دکھائیے۔ اللہ کریم ہمیں بھلائی والے کام اپنانے اور برے کاموں سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

www.facebook.com  maulanaimranattari

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری



[1]۔۔۔ ایک اہم بات: دعوتِ اسلامی کاسفرکسی ذمہ داری یا منصب کےحصول کانہیں بلکہ  نیک بننے اور بنانے کا سفر ہے۔ البتہ دعوتِ اسلامی کےمدنی ماحول  میں استقامت پانے کاایک اچھاشارٹ کٹ یہ ہےکہ مدنی کاموں کی کوئی نہ کوئی ذمہ داری اپنالی جائے۔اس کیلئے دعوتِ اسلامی کےذمہ داران سے مل کر ترکیب بنا لیجئے۔


Share