کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشواسیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا نامِ نامی نعمان،والدِ گرامی کا نام ثابِت اورکنیت ابو حنیفہ ہے۔ آپ70ھ
میں عراق کے مشہور شہر کُوفہ میں پیدا ہوئے او ر 80 سال کی عمر میں 2شعبان الْمُعظَّم 150ھ میں وفات پائی۔(نزھۃ القاری ،ج1،ص169،219)
بغداد شریف میں آپ کا اعظمیہ کے علاقے میں مزارِ
فائض الانوار مَرجَعِ خَلائِق ہے۔ذریعۂ آمدن امام ابو یوسفرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میرے استاذِ محترم امام ابو حنیفہرحمۃ اللہ علیہ ریشمی کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ایک دن آپ سے کسی نے کپڑا خریدنا چاہاتواپنے
بیٹے حمّادسے فرمایا:بیٹا!انہیں کپڑادکھاؤ۔ حمادنےکپڑا نکال کر اس گاہک کے سامنے پھیلایا پھر پڑھا: صلّی اللہُ علٰی محمَّد۔امام صاحب نے بیٹے سے فرمایا: اب یہ کپڑا مت بیچنا کیونکہ تم
(دُرود شریف پڑھ کر)اس کی تعریف کر چکے ہو۔وہ شخص چلا گیا ،سارا بازار گُھوما مگر اسے اس جیسا
کپڑا کہیں نہ ملا۔وہ دوبارہ آیا مگر امام صاحب نے اسے کپڑا دینے سے انکار کردیا۔ (مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ للموفق، جزء1،ص198) تجارتی اُمور میں شرعی اعتبار سے باریک
بینی حضرت سیِّدُنا سفیان بن زیاد بغدادیرحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:امام ابو حنیفہرحمۃ اللہ علیہ بہت متقی و پرہیز گار تھے
اورخرید و فروفت کے معاملے میں سخت چھان بین اور باریک بینی سے کام لیتےتھے۔ایک
مرتبہ مدینۂ منورہ سے ایک شخص اپنی ضرورت کا سان لینے کے لئے کُوفہ
آیا،اسے ایک خاص قسم کا کپڑا چاہئے تھا،اسے بتایا گیا کہ اس طرح کا کپڑاصرف امام ابو حنیفہ(رحمۃ اللہ علیہ) کے پاس ہی ملے گا اورلوگوں نے اسے بتایا کہ جب
تم امام صاحب کی دکان پر جاؤ تو جس قیمت میں وہ کپڑا دیں لے لیناکیونکہ ان کے ساتھ
تمہیں بھاؤ تاؤ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔وہ شخص آپ کی دکان پر پہنچا تو امام
صاحب کے ایک شاگرد سے ملاقات ہوئی۔اس نے
خیال کیا شاید یہی امام ابو حنیفہ ہیں۔اس نے کپڑا مانگا، شاگرد نے کپڑا سا منے
لارکھا۔اس نے قیمت پوچھی،شاگرد نے ایک ہزار درہم بتائی۔اس شخص نے ایک ہزار درہم
دئیے اور اپنی ضرورتوں سے فارغ ہو کرمدینۂ
منورہ واپس آگیا۔کچھ دنوں کے بعد امام صاحب نے وہی کپڑا طلب
فرمایا تو شاگرد نے بتایا: میں نے تو اسے فروخت کردیا ہے۔آپ نے پوچھا:کتنے میں
بیچا؟اس نے کہا: ایک ہزار درہم میں۔آپ نے شاگرد سے فرمایا: میری دکان میں میرے
ساتھ رہتے ہوئے لوگوں کو دھوکا دیتے ہو!چنانچہ آپ نے اسے اپنی دکان سےالگ کردیا اور خود ایک ہزار
درہم لے کر مدینۂ منورہ پہنچ گئےاوراس شخص کو تلاش کرنے پراسے اُسی کپڑے کی
چادر اوڑھے نماز پڑھتے ہوئے پایا۔آپ نے
بھی نوافل پڑھنے شروع کردئیے وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ نے فرمایا:یہ کپڑا جو تم
نے اوڑھ رکھا ہےوہ میرا ہے،اس نے کہا:وہ کیسے؟میں تو اسے کُوفہ میں امام ابو حنیفہ کی دکان سے ایک ہزار درہم میں
خریدکرلایا ہوں۔ آپ نے پوچھا:تم ابو حنیفہ کو
دیکھو گے تو پہچان لو گے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں!آپ نے فرمایا: میں ہی ابوحنیفہ
ہوں،کیا تم نے مجھ سے کپڑا خریدا تھا؟اس نے کہا:نہیں! آپ نے فرمایا:تم اپنے پیسے
لے لو اور میرا یہ کپڑا مجھے دے دو اور اسے سارا واقعہ کہہ سنایا۔اس نے کہا:میں
تو اس کپڑے کو کئی مرتبہ پہن چکا ہوں اورمجھے
اچھا نہیں لگ رہا کہ کپڑا واپس کروں۔اگر آپ چاہیں تو مزید اور پیسے لے لیں۔آپ نے
اس سے فرمایا:میں زیادہ لینا نہیں چاہتا۔کپڑے کی قیمت چار سو درہم ہے۔اگر تم چاہو
تو چھ سو درہم واپس لے لو اور یہ کپڑا تمہارا رہے گایا پھر تم اپنے ہزار لے لو اور کپڑا مجھے واپس کردو اور جو تم
نے اسے استعمال کیا تو تمہیں اس کی اجازت تھی مگر اس شخص نے کپڑا دینے سے انکار کردیا اور کہنے لگا:میں اس
کپڑے کو ہزار درہم میں لینے پر راضی ہوں۔لیکن اب آپ نے انکار کردیا ،بالآخر اس شخص
نے کہا:اگر ایسا ہی ہے تو آپ 600 درہم
مجھے دے دیجئے، چنانچہ آپ نے اسے 600درہم دئیے اور کپڑا اس کے پاس چھوڑ کر کُوفہ
واپس تشریف لے آئے۔(مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ للموفق، جزء1، ص198) بزنس پارٹنر کے تأثرات آپ کے
کاروباری شریک (Business Partner)حضرت سیِّدُنا حفْص بن عبد الرحمٰنرحمۃ اللہ علیہ جو 30 سال تک آپ کی صحبت میں رہے،فرماتے ہیں:
میں نے ایک طویل عرصہ امام صاحب کی صحبت میں گزارا،آپ کے ساتھ ملنا جلنا رہا،جیسے آپ سب کے سامنے
ہوتے تھے ویسے ہی تنہائی میں بھی ہوتے تھے،جن معاملات میں (شرعی نقطۂ نظر سے) کوئی خطرہ نہیں ہوتا ان سے بھی ایسے ہی بچتے تھے جیسے خطرے والے معاملات سے بچتے تھے ،اگر آپ کو کسی مال میں شُبہ ہوجا
تا تو اسے (صدقہ و خیرات کرکے)اپنے سے دُور کردیتے اگرچہ سارا ہی
مال کیوں نہ نکالنا پڑے۔(مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ للموفق، جزء1،ص201)دل میں شبہ پیدا ہونے پرسارا نفع صدقہ کردیا امام صاحب کا ایک غلام آپ کے لئے تجارت کرتا تھا،آپ نے تجارت کے لئے اسے
بہت سا مال دیا ہوا تھا،ایک مرتبہ 30 ہزار
درہم کا نفع ہوا،چنانچہ غلام نے نفع کو
الگ کیا اور اسے لے کر امام صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا،آپ نے اس سے ساری تفصیلات پوچھیں کہ تم نے کس کس طرح تجارت
کی۔ اس نے تجارت کے مختلف طور طریقے بیان کئے، دوران ِگفتگو اس نے ایک ایسی صورت
بتائی جوآپ کو ناگوار گزری اور آپ کے دل میں شُبہ داخل ہوگیا، آپ نے اسے خوب ڈانٹا
اور بہت ناراض ہوئےاور اس سے پوچھ گچھ کی کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور اس سے پوچھا
کہ کیاتم نے اس صورت کا نفع بھی دیگر نفعوں کے ساتھ ملا دیا ہے ؟اس نے کہا کہ
ہاں! آپ نے فرمایا:تم نےسارا نفع خراب کردیا اورپھر فقرا کو بُلوا کر 30 ہزار کاسارا
نفع ان میں تقسیم کردیا اوراپنے لئے اس میں سے کچھ بھی نہ رکھا۔ (مناقب الامام
الاعظم ابی حنیفۃ للموفق،جزء1، ص202) تجارت کے نفع میں ضرورت مند کا
حصہ ایک مرتبہ امام اعظمرحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایک شخص آیا اورعرض کی:حضور!مجھے کپڑے کے ایک (خوبصورت) جوڑے کی ضرورت ہے،آپ مجھ پر احسان فرمائیے،میں ان
کپڑوں سے زینت اختیار کرکے سسرالی رشتے دار کے پاس جانا چاہتا ہوں۔آپ نے فرمایا:دو
ہفتے صبر کرو۔وہ دو ہفتوں کے بعد پھر آیا۔آپ نے فرمایا:کل آنا،وہ دوسرے دن آیا تو
آپ نے اسےایک قیمتی جوڑا دیا جس کی قیمت 20 دینار (یعنی 20 سونے کی اشرفیوں)سے بھی زیادہ تھی
اور ساتھ ایک دینار بھی اس کے حوالے کیا،اس نے پوچھا: حضور!یہ کیوں؟آپ نے
فرمایا:میں نے تمہاری نیت سے بغداد میں
کچھ سامان بھیجا تھا،چنانچہ وہ سامان بِک
گیا اور میں نے اس کے نفع سے جوڑا خرید کر
تمہارے لئے رکھ لیا لیکن جب اصل سرمایہ
میرے پاس آیا تو اس میں ایک دینار زائد تھا(یعنی وہ بھی نفع میں شامل تھا اس
لئے یہ تمہارا ہے)اگر تم اسے قبول کرتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میں اس جوڑے کو بیچ کر اس کی قیمت
اور دینار کو تمہاری طرف سے صدقہ کردوں گا۔جب اس نے امام صاحب کی یہ بات سُنی تو
وہ دینار بھی رکھ لیا۔ (مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ للموفق،جزء1، ص262)
اللہ کریم سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں بھی تجارت میں امام اعظم ابو
حنیفہرحمۃ اللہ علیہ کی طرح تقویٰ اختیار کرنے،دیانت داری سے کام لینے اوراسلامی اصولوں کی
پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورضرورت مندوں کی مدداورائمۂ کرام، عُلَما و مشائخ
کی خدمت کرنے کی سعادت نصیب کرے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،با ب المدینہ کراچی
Comments