حضرت سَعْد بن عَائِذ”اَلْمُؤَذِّن“ رضی اللہ عنہ: تاجِر صحابہ میں حضرت سیِّدُنا عمّار بن یاسِر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت سیِّدُنا سعد بن عائِذ رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو مسجدِ قُبا کا مُؤَذِّن بنایا تھا پھر جب حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور حضرت سیِّدُنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دینا چھوڑ دی تو حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سعد بن عائِذ رضی اللہ عنہ کو مسجدِ نَبَوی کا مُؤَذِّن مقرَّر کر دیا ، چنانچہ آپ اپنے وِصال تک مسجدِ نَبَوی میں اذان دیتے رہے اور آپ کے بعد آپ کے بیٹوں نے بھی اذان دینے کی ذمّہ داری نبھائی۔
حضرت سیِّدُنا سعد بن عائِذ رضی اللہ عنہ کے ذریعۂ آمدن کے حوالے سے مذکور ہے کہ آپ قَرَظ دَرَخْت کے پتوں کی تجارت کرتے تھے (قَرَظ کِیکر کی طرح کا ایک درخْت ہوتا ہے جس کے پتوں سے چمڑے کی دباغت کی جاتی (یعنی چمڑے کو سُکھایا جاتا) ہے)۔
مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مشورہ کیا: آپ نے ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اپنی تنگ دستی کی شکایت کی تو حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو تجارت کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ آپ بازار گئے اور قَرَظ کے پتے خرید کر انہیں بیچا جس سے آپ کو نفع(Profit) ہوا۔ آپ نے اس بات کا ذِکْر سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کیا تو حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو اس کی تجارت کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا۔ آپ کو سَعْدُ القَرَظ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ جب بھی کسی چیز کی تجارت کرتے اس میں آپ کو نقصان(Loss) ہوتا پھر آپ نے قَرَظ کی تجارت کی تو اس میں آپ کو نفع ہوا ، چنانچہ آپ نے اسی کی تجارت کو لازم پکڑ لیااور اسی مناسبت سے آپ کو سَعْدُ القَرَظ کہا جانے لگا۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، 3 / 54 ، تہذیب الاسماء واللغات ، 1 / 207)
اے عاشقانِ رسول! اس واقعے سے یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ جو کاروبار کسی دینی بُزُرگ کے مشورے سے شروع کیا جائے اس میں برکت ہوتی ہے۔
دودھ کا کاروبار کرنے والے صحابی:حضرت سیِّدُنا مِقدام بِن مَعْدِیْکَرَب رضی اللہ عنہکے بارے میں منقول ہے کہ آپ کا دودھ کا کاروبار تھا ، چنانچہ مسند احمد میں ہے : آپ کی ایک کنیز تھی جو دودھ بیچا کرتی تھی اور اُس کی قیمت آپ لیا کرتے تھے۔ آپ سے کسی نے کہا : سُبْحٰنَ اﷲ! آپ دودھ بیچتے ہیں اور اُس کی قیمت لیتے ہیں (گویا اس نے اس تجارت کو نظرِ حقارت سے دیکھا۔ (بہار شریعت ، 2 / 612) آپ نے جواب دیا : ہاں میں یہ کام کرتا ہوں اور اس میں حَرَج ہی کیا ہے! میں نے رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں سوائے دِرہم و دینار کے کوئی چیز فائدہ نہیں دے گی۔
(مسند احمد ، 6 / 96 ، حدیث : 17201)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…تاجر اسلامی بھائی
Comments