حقیقتیں (قسط: 2)

کتابِ زندگی

حقیقتیں ( Realities ) قسط 2

*مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2023

حقیقت کا اقرار ہمیں فائدہ اور انکار ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حقیقت کے موضوع پر ابتدائی گفتگو اور 22 حقیقتوں کا بیان  ( ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2023ء کے شمارے میں چھپنے والے مضمون )  ”حقیقتیں  ( قسط : 01 ) “ میں ہوچکا ہے ،[1] مزید معلومات کے لئے اس کی دوسری قسط پڑھئے۔

مزید  8حقیقتوں کا بیان

 ( 23 ) آخر موت ہے۔

موت ایسی حقیقت ہے جس میں تھوڑی سی بھی عقل ہے وہ اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اس جدید زمانے میں بھی کہ جب طرح طرح کے سائنسی آلات سامنے آچکے ہیں کوئی کچھ بھی کرلے موت سے بچ نہیں سکتا ، آخر اسے مرنا ہوگا ، قراٰنِ پاک میں ہے : (اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍؕ-) ترجمۂ کنزُ الایمان : تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آلے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو۔[2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) موت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہر طرح سے ختم ہوجائیں گے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں بلکہ اس کا اسلامی اور حقیقی تصور یہ ہے کہ موت ہمیں دنیا سے آخرت کی طرف منتقل کردے گی جہاں ہمیں دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کا حساب دینا ہوگا اس کے بعد نیکیوں پر انعامات اور گناہوں پر عذابات کے مستحق ہوں گے۔

 ( 24 ) دنیا آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا آخرت کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی ہے ، اس کی مثال فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اس طرح دی گئی ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لَوٹتی ہے ![3] اب ہمیں چاہئے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہ علیہ کی اس نصیحت پر عمل کریں کہ دنیا کے لئے اُتنی تیاری کرو جتنا عرصہ دنیا میں رہنا ہے اور آخِرت کے لئے اتنی تیاری کرو جتنا وہاں رہنا ہے۔[4]

دنیاوی زندگی کو بہتر ، پُرسکون بنانے کا سوچنے میں بنیادی طور پر حرج نہیں مگر ہماری اکثریت کا لائف اسٹائل دیکھ کر لگتا ہے کہ سوچوں کا محور ، گفتگو کا موضوع ، اسٹرگلز کا سنٹر ، کامیابی کا تصور صرف دنیاوی زندگی ہے ، جس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ موت کے بعد کی زندگی پیشِ نظرنہیں رہتی اور انسان غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ بہر حال ہر ایک اپنی موت کو یاد رکھے گا تو نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت نصیب ہوگی اور اُخروی زندگی بہتر بنانے کا جذبہ بھی ملے گا ، اِنْ شآءَ اللہ۔[5]

یاد رکھ ! ہر آن آخر موت ہے بَن تو مت انجان آخر موت ہے

مُلکِ فانی میں فنا ہر شئے کو ہے                                                سُن لگاکر کان ، آخر موت ہے

بارہا علمیؔ تجھے سمجھا چکے                                                                                  مان یا مَت مان آخر موت ہے

 ( 25 ) صدقہ و خیرات سے مال کم نہیں ہوتا۔

ہم اپنی رقم جب کسی چیز کی خریداری ، فیس یا یوٹیلٹی بلز وغیرہ کی ادائیگی میں خرچ کرتے ہیں تو وہ رقم کم ہوجاتی ہے لیکن اپنے ربِّ عظیم کو راضی کرنے کے لئے جو مال خرچ کیا جائے وہ بظاہر تو کم ہوجاتا ہے لیکن حقیقی طور پر کم نہیں ہوتا۔ یہ بات اگرچہ حیران کردینے والی ہے لیکن اس حقیقت کو اس عظیم ہستی نے بیان کیا ہے جن کی صداقت اور امانت کی دشمن بھی گواہی دیتے تھے ، چنانچہ اللہ پاک کے پیارے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَّال یعنی صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔[6]

کم نہ ہونے کا مطلب : اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وضاحت کرتے ہوئے شارحین  ( احادیثِ مبارکہ کی وضاحت کرنے والوں )  نے صدقہ میں دئیے جانے والے مال میں کمی نہ ہونے کی دو صورتیں بیان کی ہیں : ایک یہ کہ مال میں برکت دے دی جاتی ہے اور مال کے ذریعے پہنچنے والے نقصانات کو دور کردیا جاتا ہے ، یوں بظاہر ہونے والی کمی کو پوشیدہ برکت سے پورا کردیا جاتا ہے ، اس قسم کی برکت کو معمولاتِ زندگی میں محسوس کیا جاسکتا ہے اور دوسری یہ کہ صدقہ کرنے سے ظاہری طور پر مال کم ہوجاتا ہے لیکن اس پر ملنے والا کئی گنا ثواب اس کی کمی کو پورا کردیتا ہے۔[7]

گُندھا ہوا آٹا دیدیا : اس بات کو ایک واقعے سے سمجھئے : حضرت حبیب عَجَمی رحمۃُ اللہ علیہ کے دروازے پر ایک سُوالی نے آواز لگائی۔حضرت حبیب عجمی رحمۃُ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ   رحمۃُ اللہ علیہا  گُندھا ہوا آٹا رکھ کر پڑوس سے آگ ( جلانے کے لئے سُلگتے ہوئے کوئلے یا لکڑی )  لینے گئی تھیں تا کہ روٹی پکائیں۔ حضرت حبیب عجمی رحمۃُ اللہ علیہ نے وُہی آٹا اٹھا کر سوالی کو دے دیا۔ جب اہلیہ محترمہ آگ لے کر آئیں تو آٹا غائب ! شوہر سے پوچھا تو انہوں نے واضح جواب نہ دیا ، بہت پوچھنے پر حضرت حبیب عجمی رحمۃُ اللہ علیہ نے خیرات کر دینے کا واقِعہ بتایا۔ وہ بولیں ، سُبْحٰنَ اللہ ! یہ تو اچّھی بات ہے مگر ہمیں بھی تو کچھ کھانے کیلئے درکار ہے ! اِتنے میں ایک شَخص ایک بڑے برتن میں بھر کر گوشت اور روٹی لے آیا۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : دیکھو تمہیں آٹا پکی ہوئی روٹی کی صورت میں کتنی جلدی دوبارہ مل گیا بلکہ ساتھ میں گوشت کا سالن بھی مل گیا ![8]

صدقہ و خیرات کے دیگر فضائل و فوائد بھی قراٰنِ کریم اور فرامینِ رسولِ عظیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بیان کئے گئے ہیں ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کے دئیے ہوئے مال کو ہاتھ اور دل کھول کر اسی کی راہ میں خرچ کریں۔

 ( 26 ) مؤمن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔

کسی کے دھوکے میں آجانے کی ایک وجہ سادگی بھی ہے ، لیکن اسی کے دھوکے میں دوبارہ آجانا نادانی ہے۔ اس حقیقت کو ایک فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں یوں بیان کیا گیا ہے : ”لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِد مَرَّتَيْن یعنی مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔“[9]

شرح : اس سے مراد وہ کامل مؤمن ہے جس کی معرفت اسے معاملات کی گہرائیوں سے اس قدر باخبر کردیتی ہے کہ وہ کسی  ( ناخوشگوار )  واقعہ سے پہلے ہی اس سے چوکنّا ہوجاتا ہے ، جبکہ غافل مؤمن ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا جاتا ہے۔ البتہ یہ حدیثِ پاک ”لَا یُلْدَغْ“ یعنی غَین کی جَزم کے ساتھ بھی روایت کی گئی ہے اس صورت میں معنی ہوگا  کہ مؤمن کو اتنا محتاط اور ہوشیار رہنا چاہئے کہ وہ غفلت کے کنارے پر آئے ہی نہیں کہ اسے ایک بار کے دھوکے کے بعد دوبارہ دھوکا دے دیا جائے۔[10]

بیک گراؤنڈ : اس حدیثِ پاک کا پس منظر یہ ہے کہ ایک غیر مسلم شاعر جس کا نام ابوعزہ تھا حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم اور مسلمانوں کی مخالفت میں سخت توہین آمیز اشعار کہا کرتا تھا ، جنگِ بدر میں گرفتار ہوگیا۔ اس نے حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم سے گذشتہ  ( قصور ) کی معافی مانگی اور آئندہ اس حرکت سے باز رہنے کا عہد کیا ، حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے اسے چھوڑ دیا ، وہ چھوٹ کر پھر اس حرکت میں مشغول ہوگیا ، پھر جنگِ اُحد میں گرفتار ہوا اس نے دوبارہ معذرت کی ، تب حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے یہ فرمایا کہ مؤمن ایک سوراخ سے دو بار نہیں کاٹا جاتا اور اسے رہائی نہ دی۔ ( اس فرمانِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مُراد یہ ہے کہ )  جس سوراخ سے ایک بار بچھو نے کاٹ لیا ہو اس سوراخ میں دوبارہ انگلی مت ڈالو ، جس شخص سے ایک بار دھوکا کھالیا ہو دوبارہ اس کے دھوکے میں نہ آؤ۔[11]

فراڈیوں سے بچئے : ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ دھوکے بازوں کے فراڈ سے بچیں ، فراڈ کی جو خبریں آئے دن سننے کو ملتی ہیں ان میں عام طور پر ”راتوں رات امیر ہونے“ کا لالچ دیا گیا ہوتا ہے ، سرمایہ چند دنوں میں ”چار گُنا“ کرنے کی پٹی پڑھائی جاتی ہے ، ”لاکھوں کی زمین کوڑیوں کے مول“ بیچ دی جاتی ہے ، پچاس ہزار کی موٹر سائیکل صرف ”پانچ ہزار ایڈوانس“ کے بدلے دینے کا جھانسا دیا جاتا پھر اسکیم والے ہزاروں لوگوں کا ایڈوانس لے کر فرار ہوجاتے ہیں ، کسی قرعہ اندازی میں ”لاکھوں کا انعام“ نکلنے کی خبر دے کر ہزاروں روپے بٹور لئے جاتے ہیں ، ایسی پارٹنر شپ کی آفر کی جاتی ہے کہ چند مہینے میں رقم ”کئی گُنا“ بڑھ جانے کا جھوٹا آسرا دیا جاتا ہے۔ آج کل یہ فراڈئیے سوشل میڈیا کے ذریعے بھی شکار کرتے ہیں جبکہ حرص و لالچ اور خواہشات کے غلام ان کے ہاتھوں بار بار لُٹتے ہیں ، اللہ پاک عقلِ سلیم عطا کرے۔

سُونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے

سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے[12]

شیخ سعدی رحمۃُ اللہ علیہ کی بیان کردہ چند حقیقتیں

 ( 27 ) آرام طلب ہنر نہیں سیکھ سکتا۔ کسی بھی ہنر اور فن  ( جیسے دینی تحریر )  کو سیکھنے کے لئے بہت کوشش اور طویل محنت کرنا پڑتی ہے تب جاکر ہنر کی دولت ہاتھ آتی ہے۔

 ( 28 ) خوشبو خود اپنا تعارف ہوتی ہے ، عطر فروش  ( خوشبو بیچنے والے )  کو بتانا نہیں پڑتا کہ یہ خوشبو ہے۔ اس لئے بلند و بالا دعوے نہیں کرنے چاہئیں کہ میں یہ کرسکتا ہوں میں وہ کرسکتا ہوں بلکہ یہ لوگوں پر چھوڑ دیجئے اور کام کرکے دکھائیے ، اگر آپ کی صلاحیتیں جاندار ہوئیں تو خوشبو کی طرح اپنا آپ منوالیں گی۔

 ( 29 ) زیادہ غصہ کرنا وحشت دلاتا ہے اور بے موقع نرمی ہیبت مٹاتی ہے۔ اس لئے نرمی اور سختی حسبِ موقع کرنا مناسب ہے ، سرجن ضرورت پڑنے پر کٹ بھی لگاتا ہے پھر اس پر مرہم بھی لگاتا ہے۔

 ( 30 ) مال زندگی گزرانے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ زندگی مال کمانے کے لئے۔[13]

 ( بقیہ تیسری قسط میں )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ  ( اسلامک ریسرچ سینٹر ) ، کراچی



[1] پہلی قسط پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کیجئے :

https : / / www.dawateislami.net / magazine / ur / kitaab-zindagi / haqeeqatain

[2] پ5 ، النسآء : 78

[3] مسلم ، ص1171 ، حدیث : 7197

[4] سیرت ابن جوزی ، ص123

[5] موت کی یاد اور فکر آخرت بیدار کرنے کیلئے مکتبۃُ المدینہ کی ان کتابوں اور رسالوں کو پڑھ لیجئے : *قیامت کا امتحان *قبر کی پہلی رات *قبر کا امتحان *موت کا تصور *قبر میں آنے والا دوست۔

[6] مسلم ، ص1071 ، حدیث : 6592

[7] شرح مسلم للنووی ، 16 / 141 ، تحت الحديث : 6592

[8] روضُ الریاحین ، ص276

[9] مسلم ، ص1222 ، حدیث : 7498

[10] التوشیح شرح الجامع الصحیح ، 8 / 3693 ، تحت الحدیث : 6133

[11] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 624 ملخصاً

[12] حدائق بخشش ، ص185

[13] گلستان سعدی۔


Share