دوستوں کے حقوق
*بنتِ یوسف قمر
طبیعتِ انسانی میں شامل ہے کہ انسان ہم ذہن افراد سے رغبت رکھتا ہے۔ انہی ہم ذہن افراد کو بعض اوقات دوست کا نام دیا جاتا ہے۔شریعتِ اسلامیہ میں ہے کہ دوست اگر اچھا ہو تو دین و دنیا میں کامیابی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ دین جس طرح دیگر معاملات میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے اسی طرح دوستی کے احکامات بھی بتاتا ہے ، چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہوتا ہے : ( وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ( ۷۱ ) ) ترجمۂ کنزالایمان : اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ ( پ10 ، التوبۃ : 71 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
آئیے ! دوستوں کے چند حقوق پڑھئے :
دوست کے لئے وہ پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرے : انسان کو ہر معاملے میں ہی اپنے دوست کے لئے وہی پسند کرنا چاہئے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہو یعنی اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے تو اسے اپنے دوست کی بھی عزت کرنی چاہئے اور اگر وہ طنز و دل آزاری وغیرہ کو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے تو اسے اپنے دوست کے لئے بھی ان چیزوں کو ناپسند کرنا چاہئے۔ چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی مومن ( کامل ) نہیں ہوگا جب تک کہ اپنے بھائی ( مومن ) کے لئے وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہے۔ ( منتخب حدیثیں ، ص84 )
نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے منع کرنا : دوست کا حق یہ بھی ہے کہ اسے نیکی کا حکم دیا جائے اور بُرائی سے منع کیا جائے۔ بعض اوقات دوست کو نیکی کی ترغیب تو دِلا دی جاتی ہے لیکن اگر وہ گناہوں یا غلط صحبت میں پڑ جائے تو اس پر خاموشی اختیار کرنے کو ہی دوستی سمجھا جاتا ہے یا اس سے دوری اختیار کر لی جاتی ہے جبکہ یہ دونوں درست نہیں بلکہ دوست کو بُرے کاموں میں ملوث دیکھ کر روکنا چاہئے۔فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اچھا ساتھی وہ ہے کہ جب تُو خدا کو یاد کرے وہ تیری مدد کرے اور جب تُو بھولے تو یاد دِلا دے۔ ( جامع صغیر ، ص244 ، حدیث : 3999 )
خوشی و غمی میں شریک ہونا : حقِ دوستی یہ بھی ہے کہ دوست کی خوشی کے ساتھ ساتھ اس کی تکلیف و مصیبت میں بھی شامل ہوا جائے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ خوشی کے موقع پر تو شرکت کر لی جاتی ہے لیکن دوست کے تلخ ایام میں اسے اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔اگر دوست کو کوئی مالی مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرنا بھی کارِ ثواب ہے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی مسلمان کو دنیوی تکلیف سے رہائی دے تو الله اس سے روزِ قیامت کی مصیبت دور کرے گا۔ ( مشكاة ، 1 / 60 ، حدیث : 204 )
ذکرِ خیر اور دُعا کرنا : دوست کا حق یہ بھی ہے کہ ظاہری زندگی میں بھی اس کا اچھے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا جائے اس کا کوئی عیب وغیرہ ظاہر ہو جائے تو اسے چھپایا جائے اور اس کے لئے دعا کی جائے اور بعدِ وفات بھی اسے اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے اور خلوصِ دل سے اس کیلئے دعائےمغفرت کی جائے۔
جس طرح دوستی اگر دین داری کے اصولوں کے مطابق کی جائے تو فائدہ دیتی ہے اسی طرح اس کے بر خلاف دوستی نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے لہٰذا ہمیں اچھے دوست بنانے چاہئیں۔
اللہ پاک ہمیں دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ دوستی کے حقوق سمجھنے اور ان کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجَاہِ خاتمِ النبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* درجۂ رابعہ ، جامعۃُ المدینہ گرلز پاک پورہ ، سیالکوٹ
Comments