آخر درست کیا ہے ؟
مذہبی حساسیت اور بے حسی
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2023
مذہبی حساسیت کیا ہے ؟
مذہبی حساسیت اپنی ذات پر شریعت نافذ کرنے ، دوسروں کے متعلق اس کی فکر کرنے کے ساتھ پورے معاشرے کو صحیح عقائد سکھانے ، دین پر عمل پیرا ہونے اور اسلامی عقائد و اعمال کی خلاف ورزی پر دلی بے قراری اور عملی تدارک کی کوششوں کا نام ہے۔ صرف خود شریعت پر عمل کرنے کو کافی سمجھ کر دوسروں کو بُرائی میں پڑے رہنے دینا ، قدرت کے باوجود انہیں برائی سے نہ روکنا ، بےحسی ، اسلامی فریضے کا ترک اور ایک مذموم فعل ہے۔ سابقہ امتوں کی تباہ کن برائیوں میں سے ایک یہ بھی قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے کہ وہ دوسروں کو برائیوں سے روکتے نہیں تھے ، چنانچہ فرمایا : ( كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ( ۷۹ ) ) ترجَمۂ کنزالعرفان : وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے تھے۔ ( پ6 ، المآئدۃ : 79 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
بلکہ دوسروں کو برائی سے روکنا دَرْحقیقت اپنی ذات کوبھی اُس برائی سے بچانے کا ذریعہ ہے ، کیونکہ دوسروں کو روکنے والا خود بھی بچا رہتا ہے اور معاشرے میں پھیلتی برائیوں پر خاموش رہنے والا ایک دن خود بھی اُن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس حکمت کا بیان نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں بیان فرمایا : جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے ، تو اُن کے علماء نے پہلے تو اُنہیں منع کیا ، جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی اُن سے مل گئے اور کھانے پینے اُٹھنے بیٹھنے میں اُن کے ساتھ شامل ہوگئے ، اُن کی اِسی نافرمانی اور سرکشی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اورحضرت عیسیٰ علیہما الصّلوٰۃُ والسّلام کی زبان سے اُن پر لعنت اُتاری۔ ( ترمذی ، 5 / 35 ، حدیث : 3058 )
البتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رَحمت سے ہم پر یہ آسانی رکھی ہے کہ برائی کو طاقت ہی سے ختم کرنا ضروری نہیں ، بلکہ زبان سے روک سکتے ہیں تو زبان سے روکیں ورنہ دل میں برا جانیں ، لیکن یہ ہرگز نہیں کہ سیکولرازم ( Secularism ) کا شکار ہوکر یہ کہیں کہ بس اپنی فکر کرلینا کافی ہے اور دوسروں کو اُن کے حال پر چھوڑ دو۔ یہ اسلام نہیں ، کوئی اور دین ہے۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہت واضح ہدایت دی ہے کہ : تم میں جو شخص برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے ، اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے اوراگر اس کی بھی نہیں رکھتا تو دل سے ( اُس کو برا جانے ) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ ( مسلم ، ص48 ، حدیث : 49 ) لہٰذا یہ ہرگز حکمِ شریعت نہیں کہ بس خود عمل کرلو اور دوسروں کے لیے گُم سُم یا ”صم بکم“ بیٹھے رہو یا بس دل میں برا جان کر بری الذمہ ہوجاؤ ، نہیں نہیں ، سب سے پہلے تو حکم ہی طاقت سے روکنے کا ہے ، جو حکومت یا انتظامیہ کا کام ہے ، پھر زبان سے روکنے کا ہے ، جو علماء و دیگر افراد کا ، پھر دل میں برا جاننے کا درجہ ہے جو کمزوروں ، بے بسوں کا ہے ، لیکن افسوس کہ سیکولرازم کو اِسلام پر ترجیح دینے والے مسلمانوں کو اِسی کمزوری و بے بسی کا درس دینا چاہتے ہیں۔ عملی اِقدامات اور تقریری و تحریری کوششوں کو مذہبی حساسیت سے خارج کر دینا اور کہیں اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، دنیاوی اداروں میں برائی کے خلاف انتظامی ، عملی اقدامات اور زبانی کاوشوں کو انتہا پسندی کا نام دینا ، در حقیقت لوگوں میں دینی غیرت وحَمِیَّت ختم کرنے کی کوشش اور اسلام دشمنوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دینے کا بہانہ ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ محبت و دوستی
غیر مسلموں کے ساتھ مل کر ان کے دینی تہوار منانے کی تائید میں یہاں تک کہہ دینا کہ اسلام نے کہیں غیر مسلموں کے ساتھ محبت سے منع نہیں کیا ، یہ رب ذوالجلال پر سخت افترا ہے۔ ( نعوذ باللہ من ذلک ) قرآنِ کریم میں کئی آیات ہیں جن میں مطلقاً تمام کفار سے اتحاد اور دوستی و محبت کو حرام قرار دیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ( تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ ( ۸۰ ) وَ لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ وَلٰكِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ( ۸۱ ) ) ترجَمۂ کنز العرفان : تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں ، تو ان کی جانوں نے اُن کے لیے کتنی بری چیز آگے بھیجی کہ اُن پراللہ نے غضب کیا اور یہ لوگ ہمیشہ عذاب میں ہی رہیں گےاور اگر یہ اللہ اور نبی پر اور اُس پر جو نبی کی طرف نازل کیا گیا ہے ، ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے ، لیکن ان میں بہت زیادہ فاسق ہیں۔ ( پ6 ، المآئدۃ : 80 ، 81 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) بلکہ اگر کسی کا باپ ، بیٹا ، بھائی یا خاندان والے کافر ہوں ، تو اُن سے بھی محبت کو حرام فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا : ( لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ- ) ترجَمۂ کنزالعرفان : تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں۔ ( پ28 ، المجادلۃ : 22 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اتنی واضح آیات ہونے کے باوجود ، اس بات کا ہی انکار کردینا کہ اسلام نے کہیں غیر مسلموں کے ساتھ مَحبَّت و دوستی سے منع نہیں کیا ، بے باکی نہیں تو اور کیا ہے ؟ کھلم کھلا اِن آیات سے منہ پھیرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ کافروں سے محبت کی علامت نہیں تو اور کیا ہے ؟ دینِ اسلام کے احکام سے بیزاری نہیں تو اور کیا ہے ؟
کیا صرف برسر پیکار کافروں سے دوستی کی ممانعت ہے ؟
سیکولر مائنڈ سیٹ ( Secular Mindset ) رکھنےوالے کہتے ہیں کہ جن آیات میں کفار سے دوستی کی ممانعت ہے ، وہ اُن لوگوں سے متعلق ہیں جو مسلمانوں سے حالتِ جنگ میں ہوں ، حالانکہ قرآن کریم اس بات پر گواہ ہے کہ کافروں سے محبت اور دوستی کے ممنوع ہونے کی اصل وجہ ، اُن کا کفر کرنا اور اللہ عزّوجل اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مخالفت اور اُن کے ساتھ دشمنی کرناہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ( ۲۳ ) ) ترجَمۂ کنز العرفان : اے ایمان والو ! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں اور تم میں جو کوئی اُن سے دوستی کرے گا ، تو وہی ظالم ہیں۔ ( پ10 ، التوبۃ : 23 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کتنے صریح الفاظ میں کافروں سے محبت اور قلبی دوستی کے ممنوع ہونے کی وجہ کو بیان کردیا گیا کہ کفر کو ایمان پر ترجیح دینا ، دوستی سے ممانعت کی وجہ ہے۔کیا اب بھی کوئی کہے گا کہ برسر پیکار لوگوں کے ساتھ ہی دوستی منع ہے اور باقیوں کے ساتھ سب کچھ روا ہے ؟
جو حالتِ جنگ میں نہ ہوں اُن کفار سے بھی صرف دنیاوی اچھے سلوک کی اجازت دی گئی ہے ، دوستی ان سے بھی حرام ہی ہےاور جہاں تک ”سورۃ الممتحنۃ“ کی آیت نمبر 8 کی بات ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے غیر مُحارِب کفار کے متعلق ارشاد فرمایا : ( لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ( ۸ ) ) ترجَمۂ کنز العرفان : اللہ تمہیں اُن لوگوں سے احسان کرنے اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا ، جنہوں نے تم سے دین میں لڑائی نہیں کی اورنہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ( پ28 ، الممتحنۃ : 8 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تو اس میں بھی کفار سے دوستی کی اجازت نہیں دی گئی ، بلکہ جن کفار سے مسلمانوں کا امن واَمان کا معاہدہ ہے یا جو ذِمِّی کفار ہیں ، اُن کے ساتھ صرف ”بِرّ“ یعنی اپنی ذاتی مصلحت کی خاطر اُن سے اچھا سلوک کرنے اور اِقساط یعنی برابری کا برتاؤ كرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اس معنیٰ و مفہوم کا تعلق درست ہے ، خواہ اسے تعلق کہیں یا ظاہری دوستی ، ورنہ دلی دوستی اور ایسی دوستی کہ ان کے تہواروں تک میں برابر کی شرکت کی جائے ، اِس کے حرام ہونے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی مکی ، مدنی ظاہری زندگی میں اور بعد میں چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے اپنی وسیع سلطنتوں میں موجود غیرمسلموں کے کون سے تہوار میں شرکت کی ؟ کسی میں بھی نہیں۔ ( جاری.... )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments