تفسیر قراٰنِ کریم
جنت کن لوگوں کے لئے ہے ؟ ( قسط : 01 )
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر2023
اللہ ربّ العزّت نے فرمایا : ( وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ ( ۳۱ ) هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍۚ ( ۳۲ ) مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۙﹰ ( ۳۳ ) ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ- ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ ( ۳۴ ) لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ ( ۳۵ ) ) ترجمۂ کنز العرفان : اور جنّت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی ، ان سے دور نہ ہوگی۔ ( کہا جائے گا : ) یہ ہے وہ ( جنت ) جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ، ہر رجوع کرنے والے ، حفاظت کرنے والے کے لیے ، جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرا اور رجوع کرنے والے دل کے ساتھ آیا۔ ( ان سے فرمایا جائے گا ) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ ، یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔ ان کے لیے جنت میں وہ تمام چیزیں ہوں گی جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔ ( پ26 ، ق : 31تا35 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر :
مذکورہ آیات میں پانچ چیزیں بیان فرمائی گئیں : ( 1 ) جنت متقین کے لئے ہے اورخدا کے اِنعام و اِکرام کا یہ عظیم مقام متقیوں کے قریب کردیا گیا ہے یا قریب کردیا جائے گا۔ ( 2 ) جنت کا وعدہ ان لوگوں کے لئے ہے جو خدا کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے ، اپنے ایمان ، نیک اعمال ، خلوت و جلوت ، ظاہر و باطن اور حقوقِ الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہیں اوراس کے ساتھ ، دیکھے بغیر رحمٰن عزوجل سے ڈرنے اور خدا کے حضور رجوع کرنے والے دلوں کے ساتھ پیش ہونے والے ہیں۔ ( 3 ) جنت میں داخلہ سلامتی کے ساتھ اور ہمیشہ کے لئے ہوگا۔ ( 4 ) جنتیوں کو جنت میں وہ سب کچھ عطا کیا جائے گا جس کی وہ خواہش کریں گے۔ ( 5 ) جنت میں خواہش و طلب پر ملنے والی نعمتوں کے علاوہ خداوندِ کریم کی طرف سے مزید نعمتیں بھی عطا کی جائیں گی جن میں سب سے اعلیٰ نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔
آیت میں فرمایا کہ جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی ، ان سے دور نہ ہوگی۔ بندوں پر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور ابدی نعمتوں پر مشتمل عظیم مقام کا نام جنت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے بنایا ہے ، اس میں وہ نعمتیں ہیں جنہیں آنکھوں نے دیکھا ، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خیال ہی گزرا اور یہ مقام ( جنت ) ساتویں آسمان سے اوپر ہے۔
جنت کو پرہیزگاروں کے قریب کرنے کے متعدد معانی ہیں : ( 1 ) ایک معنیٰ یہ ہے کہ دنیا ہی میں جنت کو پرہیزگاروں کے دلوں کے قریب کردیا گیا کہ ان کے دلوں میں جنت میں داخلے کا شوق اور وہاں پہنچانے والے اعمال کی محبت ڈال دی گئی جن پر وہ عمل کرتے ہیں۔ ( 2 ) دوسرا معنی یہ ہے کہ جنتیوں کے لئے میدانِ قیامت سے جنت کی طرف جانا آسان کردیا جائے گاکہ جنت اگرچہ کتنے ہی فاصلے پر ہو لیکن جنتیوں کے لئے اس میں جانا ایسے ہی آسان ہوگا جیسے کسی قریب کی جگہ آدمی بآسانی چلا جاتا ہے۔ ( 3 ) تیسرا معنیٰ یہ ہے کہ جنت دیکھنے کے لئے ایسے قریب ہوگی کہ میدانِ قیامت ہی سے جنتی اسے بآسانی دیکھ لیں گے۔ ( 4 ) چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ جنت میں جانے کے بعد جنت کی تمام جگہیں آنے جانے کے لئے نہایت قریب کر دی جائیں گی کہ اگرچہ جنتی کا محل موجودہ پوری دنیا سے زیادہ بڑا ہو لیکن اگر اس نے کسی دوسری جگہ جانا ہو تو لمحے بھر میں وہاں پہنچ جائے گا ، یعنی سب مقامات رسائی کے اعتبار سے قریب قریب ہوں گے۔ یہ تمام تعبیرات تفسیر طبری ، قرطبی اور بغوی سے ماخوذ ہیں۔
اسی آیت پر حضرت علامہ اسماعیل حقی علیہ الرَّحمہ نے یوں کلام فرمایا کہ جنت میں داخلے کے اعتبار سے متقیوں کی تین اقسام ہیں : ( 1 ) عام مومنین ( 2 ) خاص مومنین ( 3 ) خاص الخاص حضرات۔ عام مومنین جنت کی طرف پیدل جائیں گے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ( وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ- ) اور اپنے رب سے ڈرنے والوں کو گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا۔ ( پ24 ، الزمر : 73 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) خاص مومنین اپنی نیکیوں کی سواریوں پر سوار ہوکر جنت کی طرف جائیں گے۔ ان کی نیکیاں سواریوں کی صورت میں تبدیل کردی جائیں گی جیسے قربانی کے جانور اور مسجدوں کے متعلق روایات موجود ہیں۔ خاص الخاص لوگوں کا معاملہ یہ ہوگا کہ وہ خود اونچے مقام پر ہوں گے اور جنت اُن کے قریب کردی جائے گی اور انہی کیلئے فرمایا گیا کہ جنت ان سے دور نہیں۔ ( روح البیان ، ق ، تحت الآیۃ : 31 ، 9 / 130 )
آیت میں فرمایا کہ جنتیوں سے کہا جائے گا کہ یہ ہے جنت جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا۔ جنتیوں کو یہ بشارت جنت میں داخلے کے وقت سنائی جائے گی اور یہ بشارت یا تو عظیم شرف عطا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سےدی جائے گی یا فرشتوں کی زبان سے ملے گی۔
آیات میں بتایا کہ جنت کن اوصاف کے مالک لوگوں کے لئے ہے ؟
جنتیوں کا پہلا وصف : آیت میں فرمایا : لِكُلِّ اَوَّابٍ ، ہر رجوع کرنے والے کے لیے۔
”اَوَّاب“ کے متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں اور تمام معانی اپنی جگہ درست ہیں۔ ( 1 ) ”اَوَّاب“ سے مراد وہ شخص ہے جو معصیت اور نافرمانی کو چھوڑ کر اطاعت اختیار کرے۔ ( 2 ) حضرت سعید بن مسیب علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں : ”اَوَّاب“ وہ ہے جو گناہ کرے پھر توبہ کرے پھر اس سے اگر گناہ صادر ہوتو پھر توبہ کرے۔ ( 3 ) ”اَوَّاب“ سے مراد وہ شخص ہے جو تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے ان کی بخشش کا سوال کرے۔ ( خازن ، ق ، تحت الآیۃ : 32 ، 4 / 178-روح البیان ، ق ، تحت الآیۃ : 32 ، 9 / 131 ) ( 4 ) ”اَوَّاب“ سے مراد تسبیح کرنے والا ہے۔ ( تفسیر طبری ، ق ، تحت الآیۃ : 32 ، 11 / 428 ) ( 5 ) ”اَوَّاب“ لوٹنے والے کو کہتے ہیں ، لہٰذا یہ وہ شخص ہے جو گناہوں سے نیکیوں کی طرف لوٹ جاتا ہے اور استغفار کرتا ہے۔ ( تفسیر کبیر ، ق ، تحت الآیۃ : 32 ، 10 / 145 )
جنتیوں کا دوسرا وصف : حَفِیْظٍ ( حفاظت کرنے والے ) ۔
اس بارے میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں : ( 1 ) اِبنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”حَفِیْظ“ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کرنے والا ہو یعنی اللہ تعالیٰ کے حق کی حفاظت کرے ، خدا کی نعمت کا اعتراف کرکے اس کا شکر ادا کرے۔ ( 2 ) حدیث میں فرمایا کہ جس نے دن کے پہلے پہر میں چار رکعت نفل نماز پر ہمیشگی اختیار کی تو وہ ”اَوَّاب“ و ”حَفِیْظ“ ہے۔ ( قرطبی ، ق ، تحت الآیۃ : 32 ، جز : 17 ، 9 / 17 ) ( 3 ) ”حَفِیْظ“ وہ ہے جو اپنی تمام سانسیں اللہ کے لئے صرف کرے یعنی رب کی طلب کے علاوہ کسی اور جگہ اپنی سانسیں ضائع نہ کرے اور کسی بھی لمحے رب کی یاد سے غافل نہ ہو۔ ( روح البیان ، ق ، تحت الآیۃ : 32 ، 9 / 131 ) ( 4 ) ”حَفِیْظ“ سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی امانتوں اور اس کے حقوق کی حفاظت کرے۔ ( 5 ) اِبنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ”حَفِیْظ“ سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور اُن سے استغفار کرے۔ ( خازن ، ق ، تحت الآیۃ : 32 ، 4 / 178 )
جنتیوں کا تیسرا وصف : مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ، جو رحمٰن سے بن دیکھے ڈرا۔
آیت میں خدا سے خشیت رکھنے کا فرمایا ہے۔ ”خشیت“ وہ خوف ہے جو کسی کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ خشیت اور خوف میں فرق ہے۔ جہنم کی سزا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ، خوف کہلاتا ہے۔ یہ کیفیت عام لوگوں میں ہوتی ہے اور خدا کی عظمت کے پیشِ نظر اس سے ڈرنا ”خشیت“ کہلاتا ہے اور یہ صفت علمائے ربانیین ، اولیائے کرام کی ہے۔
آیت میں فرمایا کہ رحمٰن سے خشیت رکھتے ہیں۔ رحمٰن کے لفظ سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کے بندے اس سے ڈرنے کے باوجود اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں نیز بندوں کو علم ہے کہ رب کی رحمت بہت وسیع ہے اور بندوں کے خوف کے باوجود رب کریم اپنی رحمت اپنے بندوں سے نہ روکے گا اور یہ بات بھی ہے کہ بندے ، رب کے اس ارشادِ گرامی ( نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ ( ۴۹ ) وَاَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ ( ۵۰ ) ) ترجمہ : میرے بندوں کو خبر دو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور بیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔ ( پ15 ، الحجر : 49 ، 50 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) پر عمل کرتے ہیں یعنی وہ خوف و رجا کے درمیان میں رہتے ہیں۔
آیت میں فرمایا : بغیر دیکھے خدا سے ڈرتے ہیں۔اس کے دو معنیٰ ہیں ، ایک یہ کہ مومن اپنے رب سے ڈرتا ہے حالانکہ اس نے اپنے رب کو دیکھا نہیں ہے۔ دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ مومن بندہ ، خلوت میں بھی خدا سے ڈرتا ہے حالانکہ اس وقت کوئی انسان اسے نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ ( قرطبی ، ق ، تحت الآیۃ : 33 ، جز : 17 ، 9 / 17 )
جنتیوں کا چوتھا وصف : وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ ، رجوع کرنے والے دل کے ساتھ آیا۔
خدا کے حضور رجوع کرنے والے دل کے ساتھ حاضر ہونے والے وہ ہیں جو اللہ و رسول عزوجل و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت پر توجہ رکھتے ہیں ، مخلص ہوتے ہیں ، خدا کی حرمتوں کو جاننے والے ، خدا سے دوستی رکھنے والے ، خدا کے جلال کے سامنے تواضع کرنے والے اور خدا کی خاطر اپنی خواہشِ نفس کو چھوڑنے والے ہوتے ہیں۔ ( قرطبی ، ق ، تحت الآیۃ : 33 ، جز : 17 ، 9 / 17 ) قلبِ منیب ، قلب سلیم کی طرح ہے جو قرآن میں فرمایا : ( اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ( ۸۴ ) ) ( پ23 ، الصّٰٓفٰت : 84 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس سے مراد شرک سے سلامتی ہے اور جو شرک سے سلامت ہو وہ غیراللہ کو چھوڑ کر رب کی طرف رجوع کرتا ہے تو ایسا قلب ”قلب منیب“ کہلاتا ہے اور جو اللہ کی طرف رجوع کرے اور شرک سے بری ہو تو ایسا قلب ”قلبِ سلیم“ ہوگا۔ ( تفسیر کبیر ، ق ، تحت الآیۃ : 33 ، 10 / 147 )
آیت میں فرمایا : اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ ؕپرہیزگاروں سے کہا جائے گا جنت میں جاؤ سلامتی کے ساتھ ، یہ سلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر سلامتی کا نزول ہوگا یا فرشتوں کی جانب سے جنتیوں کو سلام کہا جائے گا اور یہ سلامتی جنت کی نعمتوں کے زوال سے سلامتی ہوگی اور اس سلام میں سلامتی ، سعادت اور کرامت سب داخل ہوں گے۔
آیت میں فرمایا : ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ ، یہ ہمیشگی کا دن ہے۔ آیت میں ”یوم الخلود“ سے بنیادی اسلامی عقیدہ بھی واضح ہوگیا کہ جنت ہمیشہ رہے گی ، کبھی فنا نہ ہوگی اور جنتی جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی عقیدہ کافروں اور جہنم کے بارے میں ہے کہ جہنم ہمیشہ رہے گی اور کافر جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔
جنت کی نعمتوں کے متعلق فرمایا : لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ ، جنتیوں کے لیے جنت میں وہ سب کچھ ہے جو چاہیں اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔ حضرت ابوالقاسم قشیری علیہ الرَّحمہ نے فرمایا کہ انہیں کہا جائے گا کہ تم دنیا میں کہا کرتے تھے کہ وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہے ، اب جو تم چاہوگے وہی ہوگا کیوں کہ نیکی کا بدلہ ویسی ہی نیکی ہے۔نیز آیت میں فرمایا کہ جنت میں مزید بھی ملے گا۔ یہ مزید فضل اور نعمت ”دیدارِ الٰہی“ ہے۔ اہلِ بہشت جنت میں جمعہ کے دن جمع ہوں گے تو جو کچھ مانگیں گے ، اللہ تعالیٰ وہ عطا فرمائے گا اور اپنے جلوۂ دیدار سے بھی نواز دے گا۔ جنت میں جمعہ کا نام ”یوم المزید“ ہے۔ ( روح البیان ، ق ، تحت الآیۃ : 35 ، 9 / 132 ) عقیدۂ اہلِ سنت یہ ہے کہ آخرت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا اور یہ دیدار کسی کَیْفِیَّت اور جِہَت کے بغیر ہوگا۔
دعا : اللہ کریم ہمیں جنتیوں کے اوصاف و اخلاق اور اعمال کی توفیق عطا فرمائے ، ہماری بے حساب بخشش فرما کر جنت میں اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوس نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments