تاریخ کے اوراق
یمن کی تاریخ
*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2023ء
اللہ پاک کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السّلام کے مبارک دَور سے جن ملکوں کی تاریخ جُڑی ہے ان میں سے ایک ملک یَمَن بھی ہے ، کبھی ملک ، کبھی صوبہ اور اب ایک خود مختار ریاست کی حیثیت رکھنے والا ملکِ یمن بہت ساری دینی ودنیاوی خوبیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ، اس مضمون میں یمن کی تاریخ ، یمن نام کی وجہ تسمیہ ، محلِّ وُقوع ، اسلامی دورکا آغاز ، قرآن وسنت میں بیان کیے گئے اس کے فضائل اور تاریخی مقامات کا تذکرہ کیا جائے گا۔
یمن کی تاریخ یمن کی تاریخ انتہائی قدیم ہے جس کاآغاز حضرت آدم صَفِیُّ اللہ علیہ السّلام کے دور سے ہوتا ہے ، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ہابِیل رحمۃُ اللہ علیہ کے قتل کے بعد حضرت آدم علیہ السّلام نے شدید غضب ناک ہو کر قابِیل کو اپنے دربار سے نکال دیا ، تو وہ بدنصیب ، اِقلیما کو ساتھ لے کر یمن کی سرزمین ” عَدَن “ چلا گیا۔[1]
بادشاہ اور حکمران طوفانِ نوح کے بعد بَنُویَعرُب بن قَحطان بن عامر بن شالَح بن اَرْفَخْشَد بن سام یمن میں آباد رہے۔اَبُوالْاَنبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کی تیسری زوجہ حضرت قَطُورَہ کے پیٹ سے جو اولاد ” مَدْیَن “ وغیرہ ہوئے ان کو آپ علیہ السّلام نے ” یمن “ کا علاقہ عطافرمایا۔[2]
ملکۂ بلقیس کی حکمرانی کا قصہ دسویں صدی قبلِ مسیح میں یمن میں ملوکِ حِمْیَر بن سَبا میں سے ایک فاسق خبیث بادشاہ ” مالک “ نام کا تھا وہ کنواری عورتوں کو بلا کر ان کی آبر و ریزی کر تا تھا ، اس نے اپنی چچا زادبہن بِلقیس سے بھی یہی ارادہ ظاہر کیا تو بِلقیس نے اُسے اپنے محل میں بلوا کر قتل کروادیا۔ اہلِ یَمَن نے اسی سبب سے بِلقیس کو اپنا حکمر ان بنا یا ورنہ وہ عورت کی حکومت کو پسند نہ کرتے تھے۔ یہ وہی بِلقیس ہے جس کا قصہ قراٰن مجید ( کی سورہ نمل ) میں ہے۔[3] بِلقیس کے بعد خاندان حِمیر کے بہت سے افراد یمن کے بادشاہ بنے۔
یمن میں تباہ کن سیلاب کا سبب جب اہلِ یَمَن نے اللہ پاک کی نافرمانی کی تو ان پر تباہ کن سیلاب بھیجا گیا جس سے ان کے باغات وغیرہ بر باد ہوگئے۔ جیسا کہ قراٰنِ مجید میں وارِدہے۔ سَیْلِ عَرِم ( یعنی تباہ کن سیلاب ) کے بعد جو لوگ یَمَن میں رہ گئے ان پر بَنو قحطان بدستور حکمرانی کرتے رہے۔[4]یمنی بادشاہوں میں سے تُبّان اسعد ابو کرب تھا۔وہ مشرقی شہروں کو فتح کر کے واپس آتا ہوامد ینہ میں اترا ، جہاں اُس کے بیٹے کو قتل کردیا گیا تو اس نے مدینہ اور اہلِ مدینہ کو تباہ کر نا چاہا مگراُس وقت کے دوعالموں نے بادشاہ کو منع کیا۔ اس نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ ٓاخری زمانہ میں قریش میں سے ایک نبی پیدا ہوں گے جن کی ہجرت اسی شہر مدینہ کی طرف ہوگی۔ یہ سُن کروہ اپنے ارادے سے باز رہا۔ تُبّان اسعد کے بعد اس کے بیٹے حسان کو عَمْرْو بن تبان اسعد نے ملک کے لالچ میں قتل کر دیا لیکن وہ بھی جلدی ہلاک ہو گیا۔ پھر لخنیعہ ینوف ذُوشَناتر جو شاہی خاندان میں سے نہ تھا ان کا بادشاہ بن بیٹھا ، وہ فاسق خبیث تھا۔ زُرْعہ بن تُبَّان اسعد جس کا لقب ذونواس تھا ، اُس نے اِس فاسق خبیث کا کام تمام کردیا ، یہ شجاعت دیکھ کر حِمیر نے ذُونواس کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ اہلِ نجر ان اس وقت عیسائی تھے ذُونواس لشکر سمیت نَجران میں گیا اور اس نے اہلِ نَجران کو یہودیت کی دعوت دی۔ ذُونواس نے ایک خندق کھدواکر آگ سے بھردی ، جو لوگ یہودی ہو نے سے انکار کرتے وہ ان کو آگ میں گر ادیتا تھا۔ قراٰنِ کریم میں اسی ذُونواس اور اس کے اصحاب کو سو رۂ بروج میں اَصحابُ الا ُخْدُود کہا گیا ہے۔[5]
یمن پر حبشہ کے دورِ تسلط کا آغاز و اختتام ذو نواس نے نجاشی کے بھیجے ہوئے لشکر سے شکست کھائی اور دشمن کے ہاتھوں گرفتاری کے خوف سے سمندر میں ڈوب کر مرگیا۔ پھر اس لشکر کا سپہ سالار اَرْیاط یَمَن میں حکمران رہا ، وہ کمزوروں پر ظلم وزیادتی کیا کر تا تھا۔ ابرہہ اشرم نے اپنے غلام کی مدد سے اَرْیاط کو قتل کر ڈالا۔اس کے بعد حبشہ اور یَمَن نے اَبْرَہَہ کو بادشاہ تسلیم کر لیا۔یہی اَبْرَہَہ ہاتھیوں کی فوج لے کر خانہ کعبہ کو ڈھا نے آیا مگر وہ اور اس کی فوج تباہ ہو گئی۔ یہ واقعہ قراٰن پاک کی سورۂ فِیل میں ہے۔ آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دنیا میں تشریف آوری اس واقعہ کے 55 دن بعد ہوئی۔[6] اَبْرَہَہ کے بعد اس کا بیٹا یکسوم تخت ِیَمَن پر بیٹھا مگر جلد ہی ہلاک ہوگیا۔ پھر یکسوم کا بھائی مسروق تخت نشین ہوا لیکن اہلِ یَمَن اَجنبیوں کی حکومت سے تنگ تھے۔چنانچہ کِسریٰ نوشیروان سے مدد مانگی گئی ، اُس نے آٹھ سو قیدیوں کا لشکر وَہْرِزْ کی سرکردگی میں یمن کی مہم پر بھیجا ، اہلِ فارِس کو فتح نصیب ہوئی اور مسروق مارا گیا۔ اس طرح حبشہ کا یَمَن پر72 سالہ ( 529ء سے 601ء تک ) تصرف ختم ہوا۔
حاکمِ یمن باذان کے قبولِ اسلام کا قصہ وَہْرِز کے بعد مَر زُبان بن وَہْرِز پھر تینُجَان بن مَرزبان نائب السلطنت مقرر ہوا۔ تینُجَان کے بعد اس کابیٹا جانشین ہوا مگر کسریٰ نے اسے معزول کر کے باذان کو اپنا نائب مقرر کیا۔ جب حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مبعوث ہوئے تو اس وقت یہی باذان حاکم ِیمن تھا۔ جب کسریٰ ( خسروپر ویز ) کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کی خبر پہنچی تو اس نے آپ کے لئے دھمکی آمیز خط لکھا ، باذان نے وہ خط رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ اَقدس میں بھیج دیا۔ آپ نے باذان کو جواب میں لکھا کہ کسریٰ فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو قتل ہوجائے گا۔جب یہ نامہ باذان کو مِلا تو کہنے لگا کہ اگر وہ نبی ہیں تو ایساہی ہو گا۔چنانچہ کسریٰ کو اس کے بیٹے شیروز نے اسی مہینے اور اسی تاریخ کو قتل کر دیاجیسا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔یہ دیکھ کر باذان اور دیگر اہلِ فارِس جو یمن میں تھے مشرف باسلام ہوئے۔[7]
یمن نام کی وجہ تسمیہ اور محل وقوع عربی زبان میں ” یمن “ دائیں طرف کے معنی میں آتا ہے۔ اردو دائرۃ المعارف میں اس علاقے کا نام ” یمن “ پڑنے کی یہ تین وجہیں بیان کی ہیں : ( 1 ) بعض کے مطابق یہ علاقہ کعبہ کی دائیں طرف یا سورج کی دائیں طرف واقع ہے ، اس لئے اسے یمن کا نام دیا ( 2 ) اور بعض یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یقطن بن عابر اور اس کے ساتھی دیگر عرب قبائل سے جدا ہوکر دائیں طرف مڑگئے تھے ، اس لئے یہ نام پڑا ( 3 ) لیکن کچھ لوگ ایک فرضی جانباز یمن بن قحطان کے نام سے یہ نام اخذ کرتے ہیں۔[8] یمن پہلے ایک صوبہ تھا ، لیکن اب جزیرۃُ العرب کے جنوب مغرب میں ایک خود مختار مملکت ہے۔[9] اس کا دارُ الحکومت صنعاء ہے اور عربی اس کی قومی زبان ہے۔ یمن کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے ، جوزياده تر عربی بولتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں یمن عربوں کی اصل سرزمین ہے۔[10] محلِ وقوع کے لحاظ سے یمن ایک اہم ملک ہے۔ اس کے مشرق میں خلیج فارس ، جنوب میں بحیرۂ عرب ، مغرب میں بحیرۂ احمر اور شمال میں خلیج قلزم ، بادیۃ الشام اور عراق واقع ہیں۔[11] نیز اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور عمان واقع ہیں۔[12] حکومت ترکیہ نے ولایت یمن کے رقبے کا سرکاری اندازہ 19100 مربع کلو میٹر لگایا تھا۔ لیکن دیگر تخمینوں کی رو سے اس رقبے میں کمی بیشی بھی بتائی جاتی ہے۔[13]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، شعبہ تراجم المدینۃ العلمیہ
[1] روح البیان ، 2 / 382
[2] سیرت مصطفٰے ، ص44
[3] الکامل فی التاریخ ، 1 / 177 ، 178 ماخوذاً
[4] معجم البلدان ، 4 / 191
[5] الکامل فی التاریخ ، 1 / 321 ، 331- السیرۃ النبویۃلابن ھشام ، ص12 ، 19
[6] الکامل فی التاریخ ، 1 / 334 ، 335- السیرۃ النبویۃلابن ھشام ، ص 19 ، 30-سیرت الانبیاء ، ص843
[7] الکامل فی التاریخ ، 1 / 335 ، 348-السیرۃ النبویۃلابن ہشام ، ص30 ، 32
[8] ماخوذ از اردو دائرۃ المعارف ، 23 / 312 ماخوذاً
[9] اردو دائرۃ المعارف ، 23 / 312
[10] آزاد دائرۃ المعارف ، ویکیپیڈیا
[11] اردو دائرۃ المعارف ، 23 / 312
[12] آزاد دائرۃ المعارف ، ویکیپیڈیا
[13] اردو دائرۃ المعارف ، 23 / 313 ، 314
Comments