احکام تجارت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء
(1)شادی پر بیچنے کے لئے خریدے گئے پلاٹ بھی مالِ تجارت ہیں
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے چندپلاٹ اس نیت سے خریدے ہیں کہ بچے بڑے ہوں گے تو یہ پلاٹ کو فروخت کرکے بچّوں کی شادی کرے گا،کیا ان پلاٹوں پر زکوٰۃ بنے گی؟ اگربنے گی تو کتنی زکوٰۃدینی ہوگی ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں بچوں کی شادی وغیرہ کے مواقع پر بیچنے کی نیت سے خریدے گئےپلاٹ بھی مالِ تجارت ہیں کیونکہ بیچنے کی نیت کے ساتھ خریدے گئے ہیں۔ لہٰذا صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں نصاب پر سال مکمل ہونے والے دن دیگراموالِ زکوٰۃ کے ساتھ ان پلاٹوں کی سال مکمل ہونے والے دن مارکیٹ ویلیوکا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں دینا ضروری ہے۔
درمختار میں ہے:”(وما اشتراه لها) ای للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة“ یعنی جو چیز تجارت کے لیے خریدی جائے تو عقدتجارت کی نیت ملی ہونے کی وجہ سے وہ چیزتجارت کی بن جاتی ہے۔(درمختار،3/272)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)درزی کا استصناع کے طور پر سوٹ بناکر دینا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عام طور پر درزی صرف سلائی کرتے ہیں اور اسی کی اجرت لیتے ہیں جبکہ بعض درزی سلائی کرنے کے ساتھ ساتھ کپڑا بھی اپنی دکان پر رکھتے ہیں،درزی کسٹمر کو کپڑادکھاتے ہیں جس کسٹمر کو کپڑا پسند آجائے اور وہ سلائی بھی انہی سے کروانا چاہے تو خصوصی رعایت دینے کے لیے درزی یہ آپشن دیتے ہیں کہ آپ کپڑا تھان سے نہ کٹوائیں بلکہ ہمیں اسی کپڑے سے سوٹ بنانے کا آرڈر دے دیں ہم آپ کوآپ کی پسند کے مطابق تیار کر کے دے دیں گےکپڑے سمیت مکمل جوڑے کے ریٹ یہ ہوں گے۔کیا شرعی اعتبار سے درزی اور کسٹمر کی یہ ڈیل درست ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: عام طورپر سلائی کروانے والا شخص خودہی درزی کو کپڑالا کردیتا ہے اور درزی سی کر دیتا اوراپنی اجرت وصول کرتا ہے۔ ہاں اگر کوئی سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق عقد کرنا چاہے تو یہ عقد بیع استصناع کے طور پر درست ہوسکتا ہے کیونکہ بیع استصناع میں پروڈکٹ بنانے کی ذمہ داری اور اس پروڈکٹ میں لگنے والی اشیاء صانع کی جانب سے ہوتی ہیں لہٰذا جوڑا بننے میں کپڑا کیسا لگے گا، سلائی کس انداز کی ہوگی، ڈیزائن کیسا بنے گا اور دیگر وہ امور جو فریقین کے لئے تنازع کا باعث بن سکتے ہیں ان سب کو اور مکمل جوڑے کی قیمت کو واضح طور پر بیان کر دیا جائے تویہ عقد بیع استصناع کے طور پر درست ہے ۔
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:”أن يكون العمل والعين من الصانع وإلا فإذا كانت العين من المستصنع فهو عقد إجارة مثال: إذا قاول شخص خياطا على صنع جبة، وقماشها وكل لوازمها من الخياط فيكون قد استصنعه تلك الجبة وذلك هو الذي يدعى بالاستصناع۔ أما لو كان القماش من المستصنع و قاوله على صنعها فقط فيكون قد استأجره والعقد حينئذ عقد إجارة لا عقد استصناع“ یعنی: عمل اور اشیاء صانع کی جانب سے ہوں تو (یہ عقد استصناع ہے) اور اگر عین مستصنع کی جانب سےہو تو یہ عقد اجارہ ہے۔ مثال: ایک شخص نے درزی سے جبہ سینے پر معاہدہ کیا جس میں کپڑا اور تمام لوازمات درزی کی جانب سے ہوں گے تو یہ اس جبہ پر استصناع ہے۔ بہرحال اگر کپڑا مستصنع کی جانب سے ہو،اور معاہدہ فقط اس کے سلائی کرنے پر ہو تو یہ اجارہ ہے استصناع نہیں ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام،1/115)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)قسطوں پر پلاٹ خریدنے میں کن باتوں کا خیال رکھا جائے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا قسطوں پر پلاٹ خرید سکتے ہیں ؟اور کیا قسط لیٹ ہونے پر جرمانے کی شرط لگائی جا سکتی ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: قسطوں پر پلاٹ خریدنا اور بیچنا جائز ہے جبکہ پلاٹ کی متعین قیمت اور قیمت کی ادائیگی کی مدت بیان کر دی جائے نیز خریدو فروخت کے قواعد و ضوابط کے خلاف کوئی ایسی بات نہ پائی جائے جو سودے کو ناجائز کرتی ہو۔یہ بات تو طے ہے کہ اسی پلاٹ کو خریدنا بیچنا جائز ہوگا جو موجود ہو اور ایسی پوزیشن میں ہو کہ خریدار کو کھڑا کر کے دکھایا جا سکے کہ یہ آپ کا پلاٹ ہے، محض فائل نہ ہو۔
عموماً قسطوں پر پلاٹ بیچنے والے پلاٹ کی قیمت اوراس کی ادائیگی کا شیڈول چارٹ کی صورت میں جاری کرتے ہیں جس میں ڈاؤن پیمنٹ اور ماہانہ قسطوں وغیرہ کی ادائیگی کی مکمل تفصیل درج ہوتی ہےیہ ایک اچھا طریقہ کار ہےکہ اس سے قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت میں ابہام باقی نہیں رہتا۔
ہاں اگرپلاٹ کی قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت کو متعین کرنےکے بجائے قیمت کےتعلق سے مختلف پیکجزبیان کیےاور کسی بھی پیکیج کو فائنل کیے بغیر سودا کیا تو ایسا سودا کرنا جائز نہیں۔ مثلا ً ایک سال میں اگر مکمل قسطیں ادا کرو گے تو اتنی قیمت ہوگی، دو سال میں اگر مکمل قسطیں ادا کرو گے تو اتنی قیمت ہوگی، تین سال میں اگر مکمل قسطیں ادا کرو گے تو اتنی قیمت ہوگی وغیرذٰلک،قیمت کی ادائیگی میں جتنی تاخیر کرو گے اسی تاخیروالے پیکیج کے حساب سے قیمت دینی ہوگی۔ اس طرح سودا کرنا، جائز نہیں ہے کہ اس سودے میں نہ توپلاٹ کی قیمت متعین ہے اور نہ ہی قیمت کی ادائیگی کی مدت متعین ہے جبکہ درست سودا ہونے کے لیےضروری ہے کہ پلاٹ کی قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت متعین ہو۔
اس ڈیل کے شرعا ًدرست ہونے کے لیےیہ بھی ضروری ہے کہ ڈیل میں قسط کی تاخیر سے ادائیگی پر مالی جرمانہ کی شرط نہ ہوکیونکہ قسط لیٹ ادا کرنے کی وجہ سے مالی جرمانہ لینا سود ہے جو کہ حرام ہے۔
واضح رہے کہ پلاٹ کی قیمت یا اس کی ادائیگی کی مدت متعین کیے بغیر یا مالی جرمانہ کی شرط کے ساتھ ڈیل فائنل کرنا ناجائز وگناہ ہےجسے ختم کرکے نئے سرے سے عقد کرنا لاز م ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنّت، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments