Book Name:ALLAH Walon Ke Ikhtiyarat

مانگتی ہوں۔

وہ نوجوان کوئی انسان نہیں بلکہ انسانی شکل میں حضرت جبریل  علیہ السَّلام   تھے، انہوں نے فرمایا:

اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا(۱۹)

(پارہ:16، مریم:19)

 تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان  : میں تو تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ   بیٹا عطا کروں۔

یعنی اے مریَم! گھبرائیے! نہیں...!! میں  اللہ  پاک کا بھیجا ہوا فِرشتہ ہوں، آپ کو بیٹا دینے آیا ہوں۔

دیکھئے! ہیں کون؟ جبریل  علیہ السَّلام  ۔ لفظِ جبریل کا معنیٰ آپ کو معلوم ہے؟ جبریل کا معنیٰ ہے: عبدُ  اللہ ۔  اللہ  کا بندہ۔([1])  اللہ  پاک نے قرآنِ کریم میں بھی فرشتوں کو بندے فرمایا ہے:

بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ(۲۶)

(پارہ:17، سورۂ انبیا:26)

تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان :بلکہ (فرشتے)عزت والے بندے ہیں۔

پتا چلا؛ فرشتے بھی  اللہ  پاک کے بندے ہیں، حضرت جبریل امین  علیہ السَّلام  بھی  اللہ  پاک کے بندے ہیں۔ قربان جائیے! اَوْلاد دینے والا کون؟  اللہ  پاک۔ بیٹے دینے والا کون...؟  اللہ  پاک۔ مگر یہاں حضرت جبریل امین  علیہ السَّلام  یعنی  اللہ  پاک کی پاک بارگاہ کے ایک مَقْبُول ترِین بندے کہہ رہے ہیں:

لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا(۱۹)

(پارہ:16، مریم:19)

تَرْجمۂ کَنْزُالعِرْفان  :تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ   بیٹا عطا کروں۔

سُبْحٰنَ  اللہ ! معلوم ہوا؛  اللہ  پاک کی عطا سے،  اللہ  پاک کی بارگاہ کے مَقْبُول بندے


 

 



[1]... زاد المسیر ، پارہ:1، سورۂ بقرہ، زیرِ آیت:99، جلد:1، صفحہ:119۔