انداز میرے حضور کے
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وفود کے ساتھ انداز (تیسری اور آخری قسط)
*مولانا شہروز علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء
گذشتہ سے پیوستہ
زادِ راہ عطا فرمانا: چار سو گُھڑسواروں پر مشتمل مزینہ کا ایک وفد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوا۔ جب یہ قافلہ فیضِ نبوی سے مستفیض ہو کر جانے لگا تو امیرِ قافلہ حضرت نعمان بن مُقرِّن رضی اللہُ عنہ نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے درخواست کی کہ ہمیں زادِراہ عطا فرمائیے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ انہیں زادِ راہ دو۔ انہوں نے عرض کی: یارسولَ اللہ!میرے پاس کھجوروں کی تھوڑی ہی مقدار ہےجو چار سو آدمیوں کے لئے کافی نہیں ہوگی۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جاؤاور یہی کھجور ان میں تقسیم کردو۔حضرت نعمان رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہُ عنہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنے گھر پہنچے تو میں نے دیکھا کہ وہاں اونٹ کے برابر کھجوروں کا ڈھیر پڑا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہُ عنہ نے کھجوریں تقسیم کرنی شروع کیں تو سب نے اپنا اپنا حصہ حاصل کیا۔ میں سب سےا ٓخرمیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ کھجوروں کا ڈھیر اسی طرح موجود تھا،جیسے تقسیم سے پہلے تھا اور اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔([1])
مباہلہ کی دعوت دینا:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہلِ نجران کی طرف خط روانہ فرمایا جس میں آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔جب یہ پیغام انہیں پہنچا تو شہر کے پادریوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آپ کی طرف کچھ لوگوں کو بھیجا جائے تاکہ وہ ان کے حق پر ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کریں۔ اس کام کے لئے انہوں نے ساٹھ افراد پر مشتمل وفد مدینہ شریف بھیجا۔ان لوگوں کے لئے مسجد نبوی کے صحن میں خیمے لگا دیئے گئے،انہوں نے وہیں قیام کیا۔اس دوران حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں حق کی طرف بلاتے رہے اور ان کےطرح طرح کے سوالوں کے جوابات دیتے رہے لیکن ان لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ ایک دن آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم تو پہلے سے مسلمان ہیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ صلیب کے پجاری ہو اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہو حالانکہ ان کی حالت اللہ کے نزدیک آدم علیہ السّلام جیسی تھی اور وہ بھی ان کی طرح مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ پھر وہ خدا کس طرح ہو گئے۔ اہل وفد نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کوئی بات نہ مانی اور برابر بحث کرتےرہےاس پریہ آیت نازل ہوئی:
)فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ- ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱)(
ترجمۂ کنز الایمان: پھر اے محبوب جو تم سے عیسٰی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرمادو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مُباہَلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈال۔([2])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
چنانچہ اتمامِ حجت کے طور پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت فاطمۃُ الزہراء رضی اللہُ عنہا، حضرت علی رضی اللہُ عنہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہُ عنہما کو ساتھ لے کر عیسائیوں سے مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے۔ عیسائیوں کو مباہلہ کرنے کی ہمت نہ پڑی کیوں کہ ان میں سے بعض لوگوں نے رائے دی کہ اگر یہ واقعی نبی ہیں تو ہم لوگ ہمیشہ کے لئے تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ ہم نہ مباہلہ کرتے ہیں اور نہ اسلام قبول کرتے ہیں البتہ ہمیں جزیہ دینا منظور ہے۔ آپ ہمارے ساتھ ایک دیانت دار آدمی کو بھیج دیں، جو رقم آپ مقرر کریں گے وہ ہم اسے دے دیا کریں گے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی بات مان لی اور فریقین کے مابین اسی کے مطابق معاہدہ طے پا گیا۔([3])
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور جنات کا وفد:حضرت زبیر بن عوام رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں صبح کی نمازپڑھانے کے بعد فرمایا:تم میں سے کون ہے جو آج رات میرے ساتھ جنّات کے وفد کے پاس جائے گا؟ یہ جملہ تین بار دہرایا لیکن حاضرین خاموش رہے پھر آپ خود ہی مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ ہم بہت دور تک چلتے رہے یہاں تک کہ مدینہ طیبہ کے سارے پہاڑ ہم سے پیچھے رہ گئے۔ ہم نے طویل شخص دیکھے گویا کہ وہ نیزے ہوں، انہوں نے لنگوٹ پہنی ہوئی تھی۔جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھ پرشدید لرزہ طاری ہوگیا۔یہاں تک کہ خوف کی وجہ سے میری ٹانگوں پر کپکپاہٹ طاری ہوگئی۔جب ہم ان کے قریب گئے تو پیارےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے لئے اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے دائرہ کھینچا، آپ نے فرمایا: اس دائرے کے درمیان بیٹھ جاؤ۔ میرا سارا خوف و تردد ختم ہوگیا۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے تشریف لے گئےاورطلوعِ فجر تک قراءت کرتے رہے پھر تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا:میرے ساتھ آجاؤ۔پھر میں آپ کے ساتھ چلنے لگا،ہم کچھ دور ہی گئے تھے کہ آپ نے فرمایا: دیکھو کیا تمہیں ان میں سے کوئی نظر آرہا ہے؟کہا:میں بہت زیادہ سیاہی دیکھ رہاہوں پھرآپ نے زمین سے گوبر اور ہڈی اٹھائی اور ان کی طرف پھینک کر فرمایا: انہوں نے مجھ سے زادِ راہ کا سوال کیا تھا،میں نے انہیں کہا: تمہارا زادِ راہ ہڈی اور گوبر ہے۔([4])
جانوروں کے وفد پر رحم فرمانا: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مرتبہ نمازِ فجر کی ادائیگی کےبعد صحابۂ کرام کے ساتھ تشریف فرماتھے،اتنے میں دیکھا کہ تقریباً سو بھیڑیوں کا وفد حاضرِ دربارہے، حضور رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: بھیڑیوں کے یہ نمائندے تمہارے پاس آئے ہیں،یہ کہہ رہے ہیں کہ تم ان کے لئے اپنا فالتو کھانا مختص کر دو، اس کے بدلے تمہارے جانور محفوظ رہیں گے۔ بھیڑیوں نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اپنی یہ حاجت پیش کی تھی جسے آپ نے پوری فرمادی،اس کے بعد بھیڑیے باہر نکلے اور آواز نکالنے لگے۔ (گویا شکریہ ادا کررہے ہوں)([5])
یہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا آنے والے وفود کے ساتھ انداز تھا۔یہی وہ پیارا انداز تھا جس کی وجہ سے مختلف قبائل جوق در جوق اسلام کے دامن میں آنے لگے۔ آنے والے قبائل آپ کے انداز اور تبلیغ سے اس قدر متأثر ہوتے کہ نہ صرف خود مسلمان ہوتے بلکہ اپنے قبیلے جا کر نیکی کی دعوت کی دھومیں بھی مچاتے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مختلف طرزِ عمل کو پڑھنے،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments