معراج النبی
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی معراج اور بیتُ المقدس
*مولانا ابوالنورراشد علی عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024ء
اللہ پاک نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے شمار معجزات و خصوصیات سے نوازا جن میں سے ایک معجزۂ معراج بھی ہے، یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہے کہ اللہ پاک نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہجرت سے 2سال پہلے اعلانِ نبوت کے گیارھویں سال 27رجب کو رات کے تھوڑے سے حصے میں مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس تک اور پھر وہاں سے لَامَکاں تک کی سیر کروائی۔ سفرمعراج کے زمینی حصہ کی مسافت اور حکمت کو قرآنِ کریم نے یوں بیان فرمایا ہے:
(سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱))
ترجَمۂ کنزُالایمان: پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصا (بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔([1]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
مسجدِ اقصیٰ (بیتُ المقدس) لے جانے کی حکمتیں علمائے کرام نے معراج کی رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ (بیتُ المقدس) تک لے جانے کی کئی حکمتیں بیان کی ہیں جن میں سے 5یہ ہیں:
(1)اس رات رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے دونوں قبلوں کی زیارت جمع ہوجائے۔
(2)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے اکثر نبیوں کی جائے ہجرت بیتُ المُقَدَّس ہے، اسی وجہ سے آپ کو بھی بیتُ المقدس کی طرف سفر کروایا گیا تاکہ آپ کی دیگر فضیلتوں میں یہ فضیلت بھی شامل ہوجائے۔([2])
(3)مسجدِ اقصیٰ کے سب ستونوں نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی دُعا کی تھی اسی وجہ سے پہلے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے جایاگیا، جیسا کہ تفسیر روح المعانی میں ہے:مسجدِ اقصیٰ کے تمام ستونوں نے دعا کی: اے ہمارے ربّ! ہمیں ہر نبی کی برکت سے حصہ ملا ہے اور ہمیں محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کا شوق ہے، اے اللہ! ہمیں ان کی زیارت سے مشرف فرما۔ ان ستونوں کی دعا کی وجہ سے معراج (کے آسمانی سفر)کا آغاز مسجدِ اقصیٰ سے ہوا۔
(4)وہ زمین جس پر محشر برپا ہونا ہے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آنے جانے سے شرف یاب ہوجائے۔
(5)بیتُ المقدس لے جانے کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ ظاہر ہوجائے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب کے امام ہیں۔([3])
بیت المقدس کیا ہے؟ بَیتُ المُقَدَّس مسلمانوں کا قبلۂ اوّل ہے۔اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے حکیم الامت مفتی احمدیار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:چونکہ اس زمین میں حضراتِ انبیاء کے مزارات بہت ہیں اس لئے اسے قُدْس کہا جاتا ہے۔([4]) یہ انبیا اور صُلحا (نیک لوگوں) کا مرکز رہا ہے حضرت سیدنا سلیمان علیہ الصّلوٰۃُ وَالسّلام کا مزارِ اَقدس([5])اور عالَمِ اسلام کی مشہور و معروف مسجدِ اقصیٰ بھی اسی میں واقع ہے۔([6])
بیت المقدس کی فتح کی بشارت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تشریف لانے سے پہلے بیت المقدس رومیوں کے قبضے میں تھا اور نصرانی راہب اپنی مذہبی کتابوں میں پڑھ چکے تھے کہ آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں سے ایک صحابی بیت المقدس کو فتح کرے گا۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اس کی فتح کی بشارت غزوۂ احزاب کے موقع پر ارشاد فرمائی چنانچہ جب غزوۂ احزاب کے موقع پر مسلمان خندق کھود رہے تھے تو خندق کی کھدائی کے دوران ایک چٹان آگئی جو صحابَۂ کرام سے نہ ٹوٹ سکی۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے اور کدال لے کر’’بِسْمِ اللہ‘‘ پڑھ کر ایک ضرب لگائی جس سے اس کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگیا۔ فرمایا:اَللّٰهُ اَكْبَرُ اُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ الشَّامِ وَاللّٰهِ اِنِّي لَاَبْصُرُ قُصُورَهَا الْحُمْرَ مِنْ مَكَانِي هٰذَا یعنی اللہ پاک بہت بڑا ہے! مجھے ملکِ شام کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اور اللہ پاک کی قسم! میں سرخ محلات اپنی اِس جگہ سے دیکھ رہاہوں۔ اسی طرح دوسری اور تیسری ضرب پر ایران اور یمن کی کنجیوں کی بشارت عطا فرمائی۔([7])
یہ بشارت یوں پوری ہوئی کہ جب مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کے مبارک دور میں فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ اسلامی لشکر فتحِ یرموک کے بعد بیتُ المقدس کی جانب روانہ ہوا۔ بیتُ المقدس کا قلعہ نہایت ہی مضبوط تھا، رومیوں نے یرموک کا حال سن کر پوری پوری تیاری کررکھی تھی، اسلامی لشکر نے جاتے ہی قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ اور ہلکی پھلکی جنگ 4ماہ تک جاری رہی۔ رومیوں کے بڑے راہب نے اپنی قوم کو بتایا تھا کہ میں نے پچھلی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ملک شام کو محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا ایک سرخ رنگ کا صحابی فتح کرے گا۔
اس نصرانی راہب نے سپہ سالارِ لشکر حضرت سیّدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہُ عنہ سے بھی یہی کہا اور ساتھ ہی اپنی کتابوں میں لکھی ہوئی اس صحابیِ رسول کی نشانیاں بھی بیان کیں۔ جنابِ ابوعبیدہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہکو مکتوب روانہ کیا۔ یوں سیّدنا عمرفاروق اعظم کی ملک شام میں آمد ہوئی۔ جب نصرانی راہب قمامہ نے سیدنا فاروقِ اعظم کا چہرہ مبارک دیکھا تو فوراً دروازے کھلوا دیے اور بیتُ المقدس آپ کے حوالے کردیا۔([8])
بیت المقدس میں نیکیوں کا اجروثواب بیتُ المقدس یعنی مسجدِ اقصیٰ میں نماز اور دیگر نیکیوں کا اجرو ثواب بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی شریف کی طرح خاص ہے چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آدمی کا اپنے گھر میں نَماز پڑھنا ایک نَماز کے برابر ہے اور محلے کی مسجد میں نَماز پڑھنا پچیس نَمازوں کے برابر ہے اورجامع مسجد میں نَماز پڑھنا پانچ سو نَماز وں کے برابر ہے اور مسجد ِاقصیٰ اور میری مسجد (یعنی مسجد ِ نبوی) میں نَماز پڑھنا پچاس ہزارنَمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں نَماز پڑھنا ایک لاکھ نَمازوں کے برابر ہے۔([9])
مسجدِ اقصیٰ سے احرام باندھنے کا ثواب بیان کرتے ہوئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس نے عمرہ کے لئے بیت المقدس سے احرام باندھا تو اس کا یہ عمل اس کے پچھلے گناہوں کاکفارہ ہوجائے گا۔([10])
ایک اور روایت میں ہے: جو عمرے کیلئے بیت المقدس سے احرام باندھ کر تلبیہ پڑھے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔([11])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments