پرائز بانڈ اور اس کے انعام کا حکم؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ پرائز بانڈ لینا اور اس سے نکلا ہوا انعام حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگ اسے ناجائز کہتے ہیں۔کیا یہ درست ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پرائز بانڈ کی خرید و فروخت اوراس پرقرعہ اندازی کے ذریعہ نکلنے والاانعام حاصل کرنادونوں ہی درست ہیں کہ اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ نہ تو اس میں سود کا پہلو ہے کہ جتنے روپے دے کر بانڈ حاصل کیا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ اس پر نفع ملنا مشروط ہونہ ہی حکومت یہ وعدہ یا معاہدہ کرتی ہے کہ جو جو بھی خریدے گااسے انعام کی رقم ضرور دی جائے گی لہٰذا کسی بھی اعتبار سے سود کا کوئی پہلو اس میں نہیں بنتا، نہ ہی پرائز بانڈ کے اندر جوئے کا کوئی پہلو ہے کہ جتنے روپے جمع کرواکر پرائز بانڈ لیا ہے ایسا نہیں کہ یہ روپے وقت گزرنے پر بانڈ دیتے وقت کم ملیں گے یا سرے سے ہی نہیں ملیں گے۔ البتہ حال ہی میں اسٹیٹ بینک پاکستان کی طرف سے چالیس ہزار والا جو پریمیم بانڈ جاری کیا گیا ہے اس کی خریدو فروخت حرام ہے کیونکہ وہ سودی معاملہ پر مشتمل ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تجارت میں منافع کی کیا حد ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ منا فع کہ کو ئی حد ہے اور اگر ہے تو کیا ہے او ر میں سو کی چیز لیتا ہوں تو کتنے کی سیل کرسکتا ہوں کیا میں نو سو کی سیل کر سکتا ہوں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: صورتِ مسئولہ میں شریعتِ اسلامیہ نے تجارت میں باہمی رضا مندی سے ہونے والے نفع کو جائز قرار دیا ہے اس میں کوئی قید نہیں ہے کہ نفع کم ہو یا زیادہ، لہٰذاآپ اپنی سو روپے والی شے دوسرے کی رضا مندی کے ساتھ نو سو روپے یا اس سے بھی زیادہ کی فروخت کرسکتے ہیں البتہ اس بات کا خیا ل رکھا جائے کہ سودا کرتے وقت کسی قسم کے جھوٹ یا دھوکے سے کام نہ لیا جائے۔ یہ تو اس مسئلے کا فقہی حکم تھا لیکن کچھ اخلاقی تقاضے بھی ہیں اور معیشت کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ مناسب ریٹ لگا کر مال بیچا جائے خاص طور پر روز مرہ کی اشیائے ضرورت، تاکہ لوگوں کی قوتِ خرید متأثر نہ ہو۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
زندہ جانور تول کر بیچنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جانورمثلاً بکرا،گائے وغیرہ زندہ تول کر بیچنا اور خریدنا کیساہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:بکرا یا گائے وغیرہ کو زندہ تول کر خریدنا یا فروخت کرنا جائز ہے اس میں شرعاًکوئی ممانعت نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ انسان کے بالوں کی خریدوفروخت کرنا کیساہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: انسانی بالوں کی خریدو فروخت کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی طریقے سے انسانی بالوں سےکسی قسم کا فائدہ اٹھانا جائز ہے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
غیر مسلم ممالک میں مورگیج پر مکان لینا کیسا ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ میں انگلینڈ میں رہتا ہوں میں نے ایک پراپرٹی خریدنے کے لئے یہاں کے بینک سے مورگیج کے طور پر قرض لیا ہے جس کے میں ماہانہ £700 ادا کرتا ہوں جس میں سے مثلاً £50 تو سود کے طور پر اور باقی قرض کی ادئیگی کے طور پر۔ معلوم یہ کرنا تھا کہ کیا اس طرح بینک سے قرض لینا ہمارےلئے جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں یورپ و امریکہ جیسے غیر مسلم ممالک میں نقد میں پراپرٹی خریدنا بلا شبہ بہت زیادہ مشکل کا م ہے۔ سود کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے اور کوئی بھی مسلمان دوسرے مسلمان کو سود نہ تو دے سکتا ہے نہ ہی لے سکتا ہے لیکن کافر حربی اور مسلمان کے درمیان سود کے لین دین کا معاملہ مختلف ہے ۔ ہدایہ میں ہے: ”لَا رِبوٰا بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَالْحَرْبِی“ ترجمہ: مسلمان اور حربی کافر کے درمیان سود نہیں ہوتا۔ (ہدایہ آخرین، صفحہ 90)
یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے کافر حربی سے اس عقد کے ذریعے نفع لینے کو جائز قرار دیا ہے جو سودی طریقے پر مشتمل ہو مثلاً کافر کو قرض دے کر زائد رقم لینا مسلمان کے لئے جائز ہے لیکن سود کی نیت ہرگز نہیں کرے گا بلکہ جائز نفع سمجھ کر لے گا۔ واضح رہے کہ فقہاء کرام نے اس کا اُلٹ کرنے کی اجازت عام حالات میں نہیں دی یعنی یہ جائز نہیں کہ مسلمان کافر سے قرضہ لے اور اس پر اسے سودی طریقے پر نفع دے۔
البتہ غیرمسلم ممالک میں ذاتی گھر خریدنے کی دقت و دشواری کے پیشِ نظر مورگیج کی صورت میں قرضہ لے کر نفع دینا بوجہِ حاجتِ شدیدہ کے جائز ہے متعدد فقہائے عصر نے اس کی اجازت دی ہے تفصیل کے لئے دیکھئے فتاویٰ بریلی صفحہ33۔ نیز چونکہ یہ اجازت صرف حاجت شدیدہ کے پیشِ نظر ہے اس بِنا پر یہ جائز نہیں کہ کوئی ذاتی گھر کے علاوہ مورگیج پر اضافی گھر لے کرخرید و فروخت کا کاروبار شروع کر دے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عورت کے نوکری کرنے کی شرائط
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عورتوں کا نوکری کرنا کیسا ہے؟کیا شریعتِ اسلامیہ عورتوں کو نوکری کرنے کی اجازت دیتی ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: شریعتِ اسلامیہ خواتین کوپانچ(05) شرائط کے ساتھ نوکری کرنے کی اجازت دیتی ہے، اگر ان پانچ شرائط میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو عورت کو نوکری کرنے کی اجازت نہیں۔ وہ شرائط یہ ہیں: (1)کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ سِتر کا کوئی حصّہ چمکے (2)کپڑے تنگ و چُست نہ ہوں جو بدن کی ہیأت(ہیئت) ظاہر کریں (3)بالوں یا گلے یا پیٹ یا کلائی یا پنڈلی کا کوئی حصّہ ظاہر نہ ہوتا ہو (4)کبھی نامحرم کے ساتھ خفیف دیر کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو (5)اس کے وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں مظنّۂ فتنہ نہ ہو۔
لہٰذااوّل تو ان پانچ شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے اور ان میں سے ایک بھی کم ہے تو عورتوں کا نوکری کرنا حرام ہے۔ان پانچ شرائط کے ساتھ ساتھ سب سے اہم معاملہ ہے عورت کا مردوں سے فاصلہ بنائے رکھنا۔ اگر کوئی عورت برقعہ بھی پہن کر آجائے لیکن وہ مردوں سے بے تکلف ہوجائے تو خود کو فتنہ میں پڑنے سے روک نہیں سکتی۔ لہٰذا اجنبی مردوں سے بے تکلفی بالکل اختیار نہ کی جائے، نہ ہی اپنی زینت ان پر ظاہر کی جائے اور اگر کسی جگہ پر اس کی عزت پر ذرا بھی حرف آتا ہو تو اس سے حفاظت کی مکمل تدبیر کی جائے اور اگر حفاظت ممکن نہ ہو تو نوکری چھوڑنے کو ترجیح دی جائے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دار الافتا اہلِ سنّت نورالعرفان ، باب المدینہ کراچی
Comments