مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کے مال ِ وِراثَت میں حلا ل و حرام مِکس ہے ،یعنی سُوداور رشوت وغیرہ کا روپیہ بھی اس میں شامل ہے ،کچھ رقم کا توعلم ہے کہ وہ فلاں شخص سے رشوت کے طور پر لی گئی تھی (اور و ہ شخص ابھی تک زندہ ہے)، لیکن بقِیَّہ مال کے بارے میں کچھ عِلْم نہیں کہ کتنا یا کون سا مال حرام ذریعے سے حاصل کیا گیا تھا، اب اس کے بیٹے مال ِ وِراثت تقسیم کرنا چاہتے ہیں، براہِ کرم شَرْعی راہنمائی فرمائیں کہ بیٹوں کے لئے اِس مال ِوِراثت کے متعلق کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں جس مال کے بارے میں عِلْم ہے کہ مُورِث (یعنی میّت) نے فلاں شخص سے بطور ِ رشوت لیا تھا اور وہ ابھی تک زندہ ہے تو وُرَثاء پر فرض ہے کہ وہ مال اسے واپس کریں،کیونکہ مال ِ رشوت کا حکم یہی ہے کہ جس سے لیا ہو اُسے واپس ہی کیا جائے، اور جس مال کا حرام ہونا جداگانہ مُعَیَّن طور پر معلوم ہے کہ یہ والا مال حرام ہی ہے لیکن کس شخص سے لیا وہ معلوم نہیں تو اس مال کو فقراء کو صدَقہ کردیں اور جس کے بارے میں علم نہیں کہ کتنا یا کونسا مال حرام کمائی سے ہے بلکہ اِجمالاً صرف اتنا معلوم ہے کہ مال ِ وِراثت میں حرام مال بھی شامل ہے تو وُرَثاء کے لئے وہ مال لینا جائز ہے، البتّہ اُس سے بچنا اور صدَقہ کردینا افضل ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
ابوالصالح محمد قاسم القادری
زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا
سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو کیا حکم ہے؟ بیٹوں اور بیٹیوں کو کتنا کتنا حصّہ ملے گا؟ اگر کوئی بعض اولاد کو حصّہ دے بعض کو نہ دے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز اولاد والد سے اس کی زندگی میں اپنے حصے کا زبردستی مطالبہ کر سکتی ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہر شخص کواپنے تمام مَملُوکہ اموال کے بارے میں اپنی زندگی میں اختیار ہوتا ہے، چاہے کُل مال خرچ کر ڈالے یا کسی کو دے دے، اس کی زندگی میں اس کے مال میں اس کی زوجہ، اولاد یا کسی اور کا بطورِ وراثت کوئی حق نہیں،لہذا اس کا زبردستی مطالبہ بھی اپنے باپ سے نہیں کر سکتے، البتہ اگرکوئی اپنا مال اپنی زندگی میں اولاد میں تقسیم کرے تو بہتر ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں میں سب کو برابر برابر دے کیونکہ بیٹے کو بیٹی کی بنسبت دُگنا وِراثت میں ہوتا ہے اور وراثت مرنے کے بعد ہوتی ہے،البتہ اگر بیٹے کو بیٹی کی بنسبت دگنا دیا تو یہ بھی ناجائز نہیں ہے، اور اگر اولاد میں سے کوئی فضیلت رکھتا ہو مثلا طالبِ علمِ دین ہو، عالِم ہو یا والِدین کی خدمت زیادہ کرتا ہو تو اس کو زیادہ دینے میں حرج نہیں اوراولاد یا دیگر حقیقی وُرثاء میں سے بعض کو وِراثت سے محروم کرنے کی نیت ہو تو دوسروں کو دےدینا جائز نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ ٗاَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
مُجِیْب مُصَدِّق
عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عُفِیَ عَنْہُ ابوالصالح محمد قاسم القادری
مسجد کی پُرانی دریوں کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ ہماری مسجد میں کچھ دن قبل ایک شخصیت نے نئی دریاں لا کر دیں تو پُرانی دریاں اُٹھا کر مسجد کے اسٹور میں رکھ دی گئیں ، وہ دریاں مسجد کی حاجت سے زائدہیں اور آئندہ بھی کسی جگہ استعمال کے قابل نہیں کیونکہ وہ کافی جگہوں سے پھٹ چکی ہیں، اور پڑے رہنے سے مزید خراب ہونے کااندیشہ ہے، ایک شخص وہ دریاں خریدنا چاہتا ہے، براہِ کرم شَرْعی راہنمائی فرمائیں کہ ان دریوں کو بیچنا اور اُس شخص کا انہیں خریدنا شرعاً کیسا؟ یاد رہے! یہ دریاں مسجِد کے پیسوں سے خریدی گئی تھیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں مذکورہ دریوں کو مسجد کے لئے مارکیٹ ریٹ کے مطابق فروخت کرنا،اور کسی دوسرے کاانہیں خریدنا شَرْعاً جائز ہے، لیکن خریدنے والے کو چاہئے کہ وہ انہیں بے ادبی کی جگہ استعمال کرنے سے بچے۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ مسجد کے پیسو ں سے خریدا گیا وہ سامان جو فی الحال مسجد کی حاجت سے زائد ہو اور آئندہ بھی مسجد کے استعمال میں نہ آ سکے یا استعمال میں تو آ سکے لیکن وقت ِ ضرورت تک پڑے رہنے سے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے مارکیٹ ریٹ کے مطابق فروخت کرنا جائز ہے، جب فروخت کرنا جائز ہے تودوسروں کا اسے خریدنا بھی جائز ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
ابوالصالح محمد قاسم القادری
W.Cکا رخ قبلہ کی جانب ہو تو کیا کریں؟
سوال:کیافرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم نے ایک نیا مکان خریدا ہے ،جس کے دو واش رُوم ایسے ہیں جن میں W.C کا رُخ قبلہ کی جانب ہے، براہ ِ کرم یہ ارشاد فرمائیں کہ ان کے متعلّق ہمارے لئے حکم شَرْعی کیا ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آپ کے لئے حکم ِ شَرْعی یہ ہے کہ آپ ان واش روموں سے W.Cکا رخ فورا ًدرست کروائیں ، اگر اسی طرح قضائے حاجت یعنی پیشاب اورپاخانہ کرتے وقت قبلہ رُخ پیٹھ یا منہ کرتے رہے تو گنہگار ہوں گے ،کیونکہ قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا ناجائز اورگناہ ہے ،اور جتنی دیر تک ان کا رُخ درست نہیں ہو جاتا اتنی دیر تک انہیں استعمال کرنے والوں پر لازِم ہے کہ وہ قبلہ سے رخ بدل کر بیٹھیں ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
ابوالصالح محمد قاسم القادری
Comments