فرضی حکایت:طارق صاحب کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور آج سُسرال میں ان کی دعوت تھی ، کئی اچّھے اچّھے کھانے اور میٹھی ڈشیں(Sweet Dishes) تیار کی گئی تھیں، مگر داماد صاحب کچھ زیادہ ہی نخرے دکھارہے تھے اور ہر کھانے پر تبصرہ کرنا ضَروری سمجھ رہے تھے کہ فلاں کھانا چٹ پٹا نہیں ہے، کسی میں مرچیں کم ہیں تو کسی میں زیادہ، کسی میں نمک کم ہے تو کسی میں بوٹیاں کم ،میٹھا تو انہیں ایک آنکھ نہیں بھایا۔ جاتے جاتے بھی یہ کہہ گئے کہ پینے کا پانی زیادہ ٹھنڈا نہیں تھا۔ سسرال والے اتنی آؤ بھگت کرنے کے باوجود بھی ان کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے کہ داماد ہیں ،کچھ جواب دیں گے تو بیٹی کو ساری زندگی طعنے ہی سننے کو ملیں گے کہ تمہارے گھر والوں نے میری عزّت نہیں کی وغیرہ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اولاد ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے، اسی لئے جہاں ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ اچّھی بہو گھر لے کر آئیں وہیں یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ ہماری بیٹی کے لئے ایسا گھر ملے جہاں وہ خوش وخرم زندگی گزار سکے، لاڈ پیار سے پالی ہوئی بیٹی کے لئے اچّھے سے اچّھا رشتہ تلاش کرتے ہیں اور عمربھر سکھی رہنے کی دعائیں دیتے ہوئے اسے رخصت کرکے سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ لیکن جب داماد ان کی لاڈلی بیٹی کو خوشیوں کے بجائے دکھ دیتا، بے جا ظلم کرتا اور سسرالی رشتے داروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا تو ماں باپ کا سکھ کا سانس دکھ کے طوفانوں میں بدل جاتاہے۔
یادرکھئے!دینِ اسلام کی تعلیمات اوپر ذکر کی گئی حکایت سے یکسر مختلف ہیں۔اسلام ہمیں باہمی تعلقات و رشتہ داریوں کو نبھانے اور ان کا پاس و لحاظ رکھنے کی تعلیم دیتا ہے، رشتوں میں سے سسرالی رشتے کی بڑی اہمیت ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
( هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًاؕ-)
ترجمۂ کنزالایمان: اور وہی ہے جس نے پانی سے بنایا آدمی پھر اُس کے رشتے اور سسرال مقرر کی۔(پ19،الفرقان:54)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سسرالی رشتے کا ادب و احترام خود سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک فرمان سے ملتا ہے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: تم مصر فتح کرو گے، جب تم اسے فتح کرو تو وہاں کے لوگوں سے بھلائی کرناکیونکہ ان (اہلِ مصر) کا احترام ہے اور قرابت داری ہے یا فرمایا کہ سسرالی رشتہ ہے۔(مسلم،ص1056،حدیث:6494)
اس حدیثِ پاک کی شَرْح میں حکیمُ الْامّت مفتی احمدیار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں:”یعنی اگرچہ مصر(Egypt) والے معامَلات میں سَخْت ہیں ان کے مِزاج بھی سَخْت ہیں طبیعت بھی تیز ہے مگر تم ان کی سختی برداشت کرنا ان سے برتاؤ اچھا کرنا ان کی سختی کا بدلہ نَرْمی سے کرنا،(کیونکہ ) ہم کو مصر والوں سے دو طرح تعلّق ہے ایک یہ کہ (حضرتِ سیّدتنا) ماریہ قِبْطِیہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا)مصر سے آئی تھیں جن کے بَطْن شریف سے (حضرت سیّدنا) ابراہیم ابنِ رسول اﷲ (رضی اﷲ تعالٰی عنہ) پیدا ہوئے، دوسرا تعلق یہ ہے کہ ہماری دادی صاحبہ حضرتِ ہاجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مصر ہی سے تھیں، وہ ہماری دادی کا وطن ہے لہذا ان لوگوں سے ہماری قرابت داری بھی ہے۔(مزید فرماتے ہیں) مسلمان کو چاہئے کہ اپنے نسبی رشتہ کی طرح سسرالی رشتہ کا بھی احترام کرے، ساس سسر کو اپنا ماں باپ سمجھے،ان کے قرابت داروں کو اپنا عزیز جانے بلکہ ان کی بستی کا، وہاں کے باشندوں کا احترام کرے کہ وہ ساس و سسر کے ہم وطن ہیں۔ (مراٰۃالمناجیح،ج8،ص231ماخوذاً)
چنانچہ جب حضرت سیّدنا عَمْروبِن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سپہ سالاری میں صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے مصر کا محاصرہ کیا تو حملہ کرنے سے پہلے اعلان کیا :”ہمیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قِبْطِیوں(اہلِ مصر) کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے کیونکہ ان کا احتِرام ہے اور قرابت داری ہے “۔یہ سن کر ان کے راہِبوں نے کہا:”اس قدر دُور کی قرابت داری کا لحاظ تو انبیا اور انبیا کے پیروکار ہی کرتے ہیں“۔(تاریخ طبری،ج4،ص107)
اسی طرح سُسْرالی رشتے کی عزّت و توقیر کا ایک مُظاہِرہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے غزوۂ مُرَیْسِیْع کے موقع پر بھی کیا، چنانچہ جب غزوۂ مریسیع کے موقع پر قبیلہ بنی مُصْطَلِقْ کے لوگ صحابۂ کرامعلیہمُ الرِّضوان کے قیدی تھے اور رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس قبیلے کے سردار کی بیٹی حضرت سیدتناجویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح فرما کر انہیں امّہاتُ الْمؤمنین میں شامل فرمایا تو صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے ”اَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (یعنی یہ ہمارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سسرالی رشتے دار ہیں)“ کہتے ہوئے سب قیدیوں کو آزاد کر دیا۔(ابوداؤد،ج4،ص30، حدیث:3931 ماخوذاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!تعلیماتِ اسلامیہ اور اعلیٰ اخلاق و تہذیب کی رُو سے ایک داماد کو سسرال کے حق میں کیسا ہونا چاہئے؟ اس حوالے سے 14مدنی پھول پیشِ خدمت ہیں:
(1)دامادکو نیک سیرت،بااخلاق،خوش مزاج اور خیرخواہ ہونا چاہئے۔(2)بعض داماد سسرال جاتے ہیں تو ایسی ٹھاٹھ باٹھ سے جاتے ہیں جیسے یہ بادشاہ سلامت ہیں اور سسرال والے ان کی رعایا، پھر وہاں جاکر ایک کے بعد دوسرا حکم ان کی زبان پر جاری ہوجاتا ہے اور جہاں ذرا بھی حکم عدولی ہوئی مابدولت کے ماتھے پر سِلْوٹیں آگئیں اور ایسے ناراض ہوتے ہیں کہ بات چیت تک ختْم کرکے بیوی کو میکے جانے سے روک دیتے ہیں، ایسا کرنا شَرْعی و اخلاقی اعتبار سے انتہائی نامناسب ہے۔(3)داماد کو چاہئے کہ ساس اور سسر کو اپنے ماں باپ کی طرح سمجھے اور عزّت کرے۔ حکیمُ الامّت مفتی احمدیار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ دنیا میں انسان کے چار باپ ہوتے ہیں:ایک تونسبتی باپ، دوسرے اپنا سسر، تیسرے اپنا استاد،چوتھے اپنا پیر۔ اگر تم نے اپنے سسر کو بُراکہا تو سمجھ لو کہ اپنے باپ کو برا کہا۔(اسلامی زندگی، ص68) (4)سسرال میں کوئی بیمار ہو بِالخصوص ساس یا سسر اور انہیں اپنی بیٹی کی خدمت کی حاجت ہو تو داماد کو چاہئے کہ بیوی کو ان کے پاس جانے دے۔ (5)انہیں کسی کام میں اس (یعنی داماد) کی ضَرورت ہوتو اچّھے مشورے دے اور ممکن ہو تو آگے بڑھ کر کام کروائے۔ (6)ان کی خوشی و غمی میں حتّی الْامکان شرکت کرے۔ (7)سسرال والے مالی مشکلات کا شکار ہوں اور داماد استطاعت رکھتا ہو تو ان کی مدد کرے۔ (8)ان کے ساتھ(شَرْعی اجازت کے ساتھ) کچھ نہ کچھ تحفوں(Gifts) کا تبادلہ کرتا رہے تاکہ آپس میں محبت قائم رہے۔ (9)سسرال اور والدین کی آپس میں کوئی ناچاقی ہوجائے تو جانبداری سے کام نہ لے بلکہ دونوں طرف مُثبت انداز اختیِار کرے اور باہمی صُلْح اور خوشگوار تعلّقات کی کوشش کرے۔ (10) سسرال والے اگر امیر ہوں تو ان کے مال پر نظر نہ رکھے اور اپنے اندر خود داری پیدا کرے۔ (11)سسرال کی حمایت میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی یا اِن کی حمایت میں سسرال کی مخالفت ہرگزنہ کرے، اپنا پرایا خاندان نہ دیکھے بلکہ یہ دیکھے کہ دونوں طرف مسلمان ہیں۔ (12)ہمیشہ سسرال ہی میں نہ پڑا رہےبلکہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں پر بھی توجہ رکھے، اسی طرح ہر دوسرے دن بلاوجہ آنا جانا بھی قدر کھو دیتا ہے اس کا بھی خیال رکھے، نہ تو ہر روز سسرال چلا رہے اور نہ ہی برسوں کی دوری رکھے۔ (13)سسرال سے ہمدردی و حسن سلوک کے ساتھ ساتھ شریعت کی پاسداری بھی ضَروری ہے لہٰذا سسرال کے نامحرم رشتہ داروں سے ضَرور پردہ کرے۔ (14)ماں باپ اپنی بیٹی کو جہیز میں جو چاہیں دیں، لیکن داماد کا خود کسی چیز کا مطالبہ کرنا انتہائی نامناسب ہے بلکہ اکثر صورتوں میں رشوت ہے، ایسے داماد کبھی بھی سسرال کی نظر میں مُعزّز (عزّت والے)نہیں ہوسکتے، کئی دفعہ تو ایسے مطالبات کی بنیاد پر رشتے مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔
حکایت: پنجاب، پاکستان کے ایک دیہات میں شادی سے چند دن پہلے لڑکی والے جہیز کا سامان لڑکے والوں کے گھر بھیجنے کی تیاریاں کررہے تھےکہ لڑکے نے اپنی ہونے والی ساس کو فون کیا اور بہانے بہانے سے فریج کا مطالبہ کیا، وہ سن کر خاموش رہی، دوسرے دن پھر فون کیا اور موٹرسائیکل کا مطالبہ رکھ دیا، اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور مطالبہ کرے، غم سے بھری ماں نے اپنے بیٹے او ر شوہر سے اس کا تذکرہ کیا، بیٹے نے ایسے لالچی لوگوں سےفوراً رشتہ توڑنے کا کہا، وہیں شادی کی تیاریوں میں مصروف لڑکی کے ماموں سے بات کی گئی اور ہاتھوں ہاتھ اس کے بیٹے سے لڑکی کا رشتہ طے کردیا گیا، یوں لڑکی تو مقررہ دن پر ہی نکاح کے بعد رخصت ہوگئی جبکہ فریج اور موٹر سائیکل کی فرمائشیں کرنے والا شخص مِلنے والی دلہن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… ناظم ماہنامہ فیضان مدینہ، باب المدینہ کراچی۔
Comments