حضرت سیّدنا امام حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی / خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور اندھا فقیر

حضرت سیِّدنا حسن بَصْری علیہ رحمۃ اللہ القَوی ایک جلیل القدر تابِعی بُزُرگ ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ کو 130 صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ ان میں سے 70 بدری (یعنی غزوۂ بدر میں شرکت کرنے والے) صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان بھی شامِل ہیں۔(تھذیب الاسماء و اللغات،ج1،ص165، سیرِ اعلام النبلاء،ج5،ص459)وِلادت: آپ کی وِلادت مدینۂ مُنَوَّرہ میں امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دَورِ خِلَافت کے آخِری حصّے میں ہوئی۔ (سیر اعلام النبلاء،ج5،ص457 ملخصاً) حَسَن نام کس نے رکھا؟ وِلادت کے بعد آپ کو امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا عمر فاروق ِاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور انہی کی خواہش پر آپ کا نام ”حَسَن“ رکھا گیا (تذکرۃ الاولیاء،ج1،ص34 ملخصاً) کُنْیت: آپ کی کنیت”ابوسعید“ ہے۔ (سیر اعلام النبلاء،ج5،ص456)والِدہ ماجِدہ: آپ کی والِدہ ماجِدہ کا نام ”خَیْرَہ“ ہے۔ یہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا   اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی کنیز تھیں۔ (سیر اعلام النبلاء،ج5،ص456) جب آپ کی والِدہ کسی کام میں مصروف ہوتیں اور آپ رونے لگتے تو اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا آپ کو چُپ کرانے کے لئے  اپنا دودھ پلا دیا کرتیں۔(تفسیر روح البیان،ج8،ص354ملتقطاً) سیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا آپ کے لئے یہ دُعا کیا کرتی تھیں: ”اے اللہعَزَّوَجَلَّ! حسن کو مخلوق کا راہنما بنا دے۔“(مرآۃ الاسرار،ص230) حضرت حسن بَصْری کا پیشہ: ابتدائی دَور میں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جواہِرات کی تجارت کیا کرتے تھے لیکن پھر دنیا سے بےرغبت ہو کر فکرِ آخرت میں گوشہ نشینی اختِیار فرما لی۔ (تذکرۃ الاولیاء،ج1،ص34-35 ملتقطاً)خوفِ خدا: منقول ہے کہ آپ پر ہمیشہ غم کا غلبہ رہتا اور کبھی ہنستے نہ تھے (تفسیرِ قرطبی،ج4،ص115)گِریہ و زاری میں مصروف رہتے تھے اور کسی نے کبھی آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ (مرآۃ الاسرار، ص 233)آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہر وقت اس طرح سہمے رہتے تھے جیسے انہیں سزائے موت سنادی گئی ہو۔“(احیاء العلوم،ج4،ص231 ملخصاً)کنویں سے پانی اُبَل پڑا:کچھ بزرگ آپ کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوئے اور ان میں سے بعض لوگوں کو شدّت سے پیاس لگی۔ راستے میں ایک کنویں پر نَظَر پڑی لیکن اس پر رسّی اور ڈول کچھ نہ تھا۔ جب حضرت حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی سے صورتِ حال بیان کی گئی تو فرمایا: جب میں نماز میں مشغول ہو جاؤں تو تم پانی پی لینا چنانچہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو اچانک کنویں میں سے پانی خود بخود اُبَل پڑا اور سب لوگوں نے اچھی طرح پیاس بجھائی لیکن ایک شخص نے احتِیاطاً کچھ پانی ایک کوزے میں رکھ لیا۔ اس حرکت سے کنویں کا جوش ایک دم ختم ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ تم نے خدا پر اعتماد نہیں کیا، یہ اسی کا نتیجہ ہے؟ پھر آگے روانہ ہوئے تو راستے میں سے کچھ کھجوریں اُٹھا کر لوگوں کو دیں جن کی گٹھلیاں سونے کی تھیں، لوگوں نے وہ گٹھلیاں بیچ کر کھانے پینے کا سامان خریدا اور صدقہ بھی کیا۔(تذکرۃ الاولیاء ،ج1،ص40ملخصاً) وِصَالِ باکمال: آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وِصَال رَجَبُ الْمُرَجَّب کے شروع میں 110 ہجری کو ہوا۔ اس وقت آپ کی مُبَارَک عمر کم وبیش 88 برس تھی۔ (سیر اعلام النبلاء،ج5،ص472) نمازِ جنازہ: شہرِ بصرہ میں نمازِ جمعہ کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں کثیر بندگانِ خدا نے شرکت کی۔ (سیر اعلام النبلاء،ج5،ص473ملخصاً)

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رَحْمَت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحِسَاب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭شعبہ فیضان صحابیات،المدینۃ العلمیہ،سردارآباد(فیصل آباد)


Share

حضرت سیّدنا امام حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القَوی / خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور اندھا فقیر

کہتے ہیں :ایک بار اَورنگ زَیب عالمگیر علیہ رحمۃ اللہ القدیر  سلطانُ الہند خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزارِ پُر انوار پر حاضر ہوئے۔ احاطہ میں ایک اندھا فقیر بیٹھا صدا لگارہا تھا: یا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ! آنکھیں دے۔آپ نے اس فقیر سے دریافت کیا: بابا! کتنا عرصہ ہوا آنکھیں مانگتے ہوئے؟ بولا، برسوں گزر گئے مگر مراد پوری ہی نہیں ہوتی۔ فرمایا: میں مزارِ پاک پر حاضِری دے کر تھوڑی دیر میں واپَس آتا ہوں اگر آنکھیں روشن ہوگئیں فَبِہا (یعنی بَہُت خوب) ورنہ قتل کروا دوں گا۔ یہ کہہ کر فقیر پر پہرالگا کر بادشاہ حاضِری کے لئے اندر چلے گئے۔ اُدھر فقیر پر گِریہ طاری تھا اور رو رو کر فریاد کررہا تھا: یاخواجہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ! پہلے صرف آنکھوں کا مسئلہ تھا اب تو جان پر بن گئی ہے، اگر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کرم نہ فرمایا تو مارا جاؤں گا۔ جب بادشاہ حاضری دے کر لوٹے تو اُس کی آنکھیں روشن ہوچکی تھیں۔ بادشاہ نے مُسکرا کر  فرمایا: کہ تم اب تک بے دِلی اور بے توجُّہی سے مانگ رہے تھے اور اب جان کے خوف سے تم نے دل کی تڑپ کے ساتھ سوال کیا تو تمہاری مُراد پوری ہوگئی۔

اب چشمِ شِفا سُوئے گنہگار ہو خواجہ         عِصیاں کے مرض نے ہے بڑا زور دکھایا

(خوفناک جادوگر اور دیگر حکایات،ص19)


Share