اللہ پاک نے اپنی کامل قدرت اور حکمت سے اس کائنات کو پیدا فرما کر انسانوں کو اس میں بَسایا ۔ پھر انسانوں میں سےکسی کو مالدار تو کسی کو غریب ونادار، کسی کو طاقتور تو کسی کو کمزور بنایا ہے۔ یہ اللہپاک کی تقسیم ہے اس پر ہر ایک کو راضی رہنا چاہیے۔ مگر بَدقسمتی سے مالداروں کی ایک تعداد ہے جو اپنے مال کو اللہپاک کی رضا کے لئے غریبوں اور مسکینوں میں خرچ کرنے کے بجائے اسے اپنے فن اور طاقت کا کمال سمجھ کر روکے بیٹھی ہے اور دوسری طرف غریب ونادار لوگوں کی بھی ایک تعداد ہے جو اپنی غربت وناداری پر صبر کرنے کے بجائے شِکوہ وشکایت کرتی نظر آتی ہے۔ اسی غربت کے سبب ملک و بیرونِ ملک میں خودکشى کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ والدین اپنی گود میں پلنے والی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کر کے خود بھی خود کشی کر رہے ہیں۔
یاد رکھئے!خودکشى گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنم مىں لے جانے والا کام ہے۔ خود کُشی کرنے والے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری جان چُھوٹ جائے گی حالانکہ اس سے جان چھوٹتی نہیں بلکہ نہایت بُری طرح پھنس جاتی ہے جیسا کہ مکی مَدنی سلطان، رحمتِ عالمیان، رسولِ ذیشان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جوشَخص جس چیز کے ساتھ خود کُشی کرے گا وہ جہنَّم کی آگ میں اُسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری،ج 4،ص289، حدیث:6652) خودکشی کا ایک سبب: خودکشى کے کئى اَسباب ہىں،جن میں سے ایک سبب تنگدستى اور فقرو فاقہ ہے۔ امیرِ اہلِ سنَّت، حضرتِ علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مَدَنی مذاکرے میں خودکشی کی روک تھام کے لئے ایک مَدَنى پھول عطا فرماىا ہے: ”مخىر حضرات جنہىں اللہ پاک نے مال دىا ہے وہ اپنى آمدنى سے ان غرىب لوگوں کى مدد کرىں۔“میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عموماً ہر خاندان مىں اس طرح کے کئی اَفراد ہوتے ہىں جنہیں اللہ پاک نے مال و اَسباب عطا کىے ہوتے ہىں، اگر وہ اس مَدَنی پھول پر عمل کرتے ہوئے اپنے خاندان کے غرىب لوگوں کى ماہانہ مدد کرىں یا ان کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرىں تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خودکشی کے ذَریعے حرام موت مرنے کے واقعات کی کچھ روک تھام ہو جائے گی۔صدقے کی فضیلت: فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:بے شک صدقہ کرنے والوں کو صدقہ قبر کی گرمی سے بچاتا ہے، اور بلاشبہ مسلمان قيامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے ميں ہوگا۔(شُعَبُ الايمان،ج3،ص212، حديث:3347) دُگنا ثواب :رشتہ داروں کی مالی مدد کرنےمیں نفلی صدقے کے ساتھ ساتھ صِلۂ رحمی کا ثواب بھی ملتا ہے، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:عام مسکین پر صدقہ کرنا ايک صدقہ ہے اور وہی صدقہ اپنے قَرابت دار(قریبی رشتہ دار)پر دو صدقے ہيں ايک صدقہ دوسرا صِلہ رحمی۔(ترمذی،ج2،ص142،حديث:658)اسی طرح ہزاروں بلکہ لاکھوں کى تعداد مىں اىسے گھرانے بھی ہیں جو اپنے زائد اَخراجات کو کم (Reduce) کر کے ماہانہ آٹھ دس ہزار یا جتنا بھی ممکن ہو سکے کسى غرىب گھرانے کو دے کر ان کی مدد کر سکتے ہىں۔ اپنے زائد اَخراجات پر کنٹرول کر کے یہ رقم بچانا ان لوگوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن غریبوں کا بہت بھلا ہو جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کئى لوگ جو خودکشى کا سوچ رہے ہوں تو اللہ پاک کی رَحْمت سے آپ انہیں بچانے مىں کامىاب ہوجائىں۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے : جس نے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کی وہ ایسا ہے جیسے اُس نے ساری عُمْر اللہ تعالیٰ کی عِبادت کی ۔ (کنزالعمال،ج6،ص189، رقم:16453)
مىرى تمام عاشقانِ رسول اور دَرد مند مسلمانوں سےفریاد ہے کہ آپ اپنى ماہانہ آمدنى مىں سے کسى غرىب کے گھر کا کچھ نہ کچھ خرچ اپنے ذِمے لىں، ہوسکتا ہے کہ آپ کے اس تعاون کی وجہ سے غربت کی لپیٹ میں آکر مرجھانے والی کلیاں دوبارہ کِھل اُٹھیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری
Comments