عذابِ قبر

عقیدہ:  اہلِ سنّت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عذابِ قَبْر اور تَنْعِیمِ قبر  روح اور جسْم دونوں کو ہوتا ہے۔([1]) حضرت سیّدنا امام احمد بن حنبل علیہ رحمۃ اللہ الاکبر فرماتے ہیں: عَذابُ الْقَبْرِ حَقٌ لَا يُنكِرُه اِلَّا ضَالٌّ مُضِلٌّ یعنی عذابِِ قبر حق ہے اس کا انکار گمراہ اور گمراہ گر کے سواکوئی نہیں کرے گا۔([2]) کافر اور منافق (یعنی زبان سے دعوئ اسلام اور دل میں اسلام سے انکار کرنے والے) کو ہمیشہ عذابِ قبر ہو گا۔  گناہ گار مسلمان کو گناہوں کے برابر قبر میں عذاب ہو گا لیکن دعا، صَدَقہ وغیرہ کےسبب (اللہتعالیٰ چاہے گا تو) اُن  سے عذاب اُٹھا لیا جائے گا۔([3]) ضَروری وضاحت :یادرہے! عذابِ قبر سے مراد بَرزَخ میں ہونے والا عذاب ہے،اسے عذابِ قبر اس لئے کہا جاتا ہے کہ عام طور پر میِّت کو قبْر میں ہی دَفْن کیا جاتا ہے ورنہ جسے اللہ تعالیٰ نے عذاب دینے کا ارادہ فرمایا ہے اسے عذاب ضرورہوگا، چاہے وہ قبر میں دفن ہو یا نہ ہو،خواہ اسے درِندوں نے کھا لیا ہو ،یا اسے جلاکراس کی خاک ہوا میں اُڑادی گئی ہو۔([4]) عذابِ قبر کا ثبوت :قراٰنِ پاک میں ہے(سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍۚ(۱۰۱) ) ترجمۂ کنزالایمان:جلد ہم انہیں دو بار عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے۔([5])(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت کے تحت امام علی بن محمد خازِن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے کہ ایک بار تو دنیا میں رُسوائی و قتل کا اور دوسری مرتبہ قبر کا عذاب۔([6]) حضرت سیّدنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے شہزادے حضرت سیّدنا حمادرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے والد ماجد سےعذابِ قبر کے متعلّق پوچھاتو حضرت سیّدنا امامِ اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  نےفرمایا:عذابِ قَبْر بَرْحق ہے۔ عرض کیا: اس کی دلیل؟ ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:(وَ اِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ)ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور بیشک ظالموں کے لئے اس سے پہلے ایک عذاب ہے([7])(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یَعنِی دُوْنَ جَہَنَّمَ یعنی  جہنم کے عذاب سے پہلے ایک عذاب ہے اور اس سےمراد عذابِ قبر ہے۔([8]) حضور نبیِّ اکرم شفیع معظم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ ىعنى عذابِِ قبر حق ہے۔([9]) عذابِ قبر کےبعض اسباب :حضرتِ سَیِّدُنا قتادہرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:عذابِ قبر کے تین حصے ہیں:ایک تہائی عذاب پیشاب (سے نہ بچنے)کے سبب،ایک تہائی غیبت کے سبب اورایک تہائی چُغَل خوری کے سبب ہوتاہے۔([10]) عذابِ قبر سے محفوظ رہنے والے خوش نصیب :شہید عذابِ قَبْر سے محفوظ رہتا ہے۔([11]) رمضان المبارک میں فوت ہونے والا۔([12])  اسی طرح روزِجمعہ یاشَبِِ جمعہ انتقال کرنے والا۔([13]) روزانہ رات میں تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) (پوری سورت) پڑھنےوالا۔([14]) تلاوتِ قراٰن کرنے والا۔([15]) اسی طرح  ہر وہ مسلمان جس سے قبر کے سوالات نہیں ہوں گے اسے عذابِِ قبر بھی نہیں ہو گا۔([16]) حضرت سیِّدُنا امام عمر نَسَفِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے فرمایا: فرمانبردار مسلمان کو عذابِِ قبر نہیں ہو گا لیکن اسے قبر دبائے گی اور وہ اس کی تکلیف اور خوف کو محسوس بھی کرے گا۔([17])

اس بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب”قبر میں آنے والا دوست“ اور ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ(جُمادَی الاُخْریٰ1439ھ)پڑھئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭رکن مجلس المدینۃ العلمیہ،   باب المدینہ کراچی



[1] ۔۔۔ المعتمد المستند، ص182، بہارِ شریعت،ج1،ص111ملخصاً

[2] ۔۔۔ طبقات الحنابلہ،ج1،ص166

[3] ۔۔۔ تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید، ص403

[4] ۔۔۔ شرح الصاوی علی جوہرۃ التوحید،ص371

[5] ۔۔۔ پ11،التوبۃ: 101

[6] ۔۔۔ خازن،ج2،ص276، ملخصاً

[7] ۔۔۔ پ27،الطور:47

[8] ۔۔۔ تمہید ابی شکور سالمی، ص125

[9] ۔۔۔ بخاری،ج1،ص463،حدیث:1372

[10] ۔۔۔ اثبات عذاب القبر،ص 136، حدیث :238

[11] ۔۔۔ ابن ماجہ،ج3،ص360،حدیث:2799

[12] ۔۔۔ بہارِ شریعت،ج1،ص109،مفہوما

[13] ۔۔۔ حلیۃالاولیاء،ج3،ص181،رقم:3629

[14] ۔۔۔ ترمذی،ج4،ص407، حدیث:2899، مفہوما

[15] ۔۔۔ معجم اوسط،ج6،ص470، حدیث:9438،مفہوماً

[16] ۔۔۔ تحفۃ المرید علی جوہرۃ التوحید، ص 403

[17] ۔۔۔ بحرالکلام، ص219


Share

Articles

Gallery

Comments


Security Code