بسنت میلا / میوزک کے 14 نقصانات

معاشرے کےناسور

بسنت میلا

سید محمد شہزاد عطاری مدنی

ماہنامہ رجب المرجب 1439

آج ہمارے مُعاشرے میں مسلمانوں کی اخلاقی و عملی حالت خراب ہوتی جارہی ہے ، ہم اسلامی تعلیمات چھوڑ کر مغربی تہذیب و تمدّن اور اَغیار کی عادات واَطوار پر چلنے کو اپنے لئے  باعثِ فخر سمجھتے ہیں ان میں وہ  ایّام منانابھی شامل ہیں جن میں شریعت وسُنَّت کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی ہےمثلاََ  ’’بسنت میلا‘‘جوکہ غیر مسلموں کے ایجاد کردہ تہواروں میں سے ایک ہے۔

تاریخی پس منظر  پاکستان بننے سے کافی عرصہ پہلےضیاء کوٹ (سیالکوٹ) کے ایک غیر مسلم نے  حضورِانور  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اورآپ کی شہزادی بی بی فاطِمہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شان میں گستاخی کی ، بالآخر اُس گستاخ کو پھانسی دے دی گئی۔ اُس بدبخت کے’’یومِ ہلاکت‘‘کی یاد تازہ رکھنے کیلئے غیر مسلموں نے ’’بسنت میلا‘‘ نامی تہوار کی بُنیاد رکھی۔ (بسنت میلا ، ص2 ، مفہوماً)

فضولیات اور گناہوں کا مجموعہاس موقع پر مختلف ہوٹلوں ، کوٹھیوں ، بنگلوں کی چھتوں اور پارکوں میں بے پردہ عورَتوں اور مَردوں کا مخلوط  (Mixed) ماحول بنایا جاتا ہے ، بہت سی جگہوں پر شراب نوشی ، ناچ گانے ، جوئے اور ہوائی فائرنگ جیسے فضول و گناہ کے کام کئے جاتے ہیں ، رنگ برنگی پتنگوں کی خرید و فروخت پر لاکھوں کروڑوں روپے ضائع کئےجاتے ہیں نیزاس  موقع پر چھت سے گرنے ، پتنگ کی ڈور  سے گلا کٹنے اور ہوائی فائرنگ سے کئی بےقُصور افراد کے فوت ہونے کی اطلاعات عام ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فضولیات اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مزید معلومات کے لئے شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنت  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  رسالہ ’’ بسنت میلا‘‘پڑھئے۔


Share

بسنت میلا / میوزک کے 14 نقصانات

جو ناسُور ہمارے مُعاشَرے(Society) کو دِیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، ان میں سے ایک ناسُور ساز و آواز پر مُشتمل مُوسِیقی (Music) بھی ہے جو اکثر مسلمانوں کی روٹین میں اس طرح شامل ہوگئی ہے کہ کیا مرد! کیا عورت! کیا بچّہ! کیا بوڑھا! گھر ہو یا ہوٹل، شادی ہو یا دعوت، کار، ٹرک، بس کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا، اسکول ہو یا کالج، فیکٹری ہو یا باربَر (حَجّام) کی دُکان، پان کا کَیبن ہو یا کوئی گودام! مُوسِیقی کی دُھنیں (Tunes) جگہ جگہ سُنی جاتی ہیں۔ موبائل، آئی پیڈ، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ مُوسِیقی کے اِسٹوریج (گودام) بنے ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو سمجھایا جائے تو بعض اَوقات عقل سے پَیدل جواب ملتا ہے:”مُوسِیقی تو رُوح کی غذا ہے۔“ میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! وہ شے رُوح کی غذا کیسے ہوسکتی ہےجس کا آغاز شیطان نے کیا ہو! سب سے پہلے گانا شیطان نے گایا: مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شیطان نے سب سے پہلے نَوحَہ کیا اور گانا گایا۔ ( فردوس الاخبار،ج 1،ص34، حدیث:42ملخصاً)دنیا کی پہلی محفلِ موسیقی کس نے سجائی؟: پہلی محفل ِمُوسِیقی (Musical Concert)  بھی شیطان نے سجائی تھی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اللہ پاک نے حضرتِ سیِّدُنا داود علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کو ایسی خوش اِلحانی عطا کی تھی کہ آوازِ مبارَکہ سُن کر چلتا ہوا پانی ٹھہر جاتا، چَرندے اور جانور پناہ گاہوں سے باہَر نکل آتے، اُڑتے پرندے گرپڑتے اور بسا اَوقات ایک ایک ماہ تک مَدہوش پڑے رہتے اور دانہ نہ چُگتے، شِیرخوار بچّے نہ روتے نہ دودھ طلب کرتے، کئی اَفراد فوت ہوجاتے حتّٰی کہ ایک بار آپ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی پُرسوز آواز کے سبب بَہُت سارے اَفراد دَم توڑ گئے۔ شیطان یہ سب کچھ دیکھ کر جَل بُھن کر کَباب ہوا جارہا تھا بالآخر اُس نے بانسری اور طَنْبُورہ بنایا اور رحمتوں بھَرے اجتماعِ داؤدی کے مقابلے میں شیطانی محفلِ مُوسیقی کا سلسلہ شروع کیا،یوں  اب سُننے والوں کے دو گروپ بن گئے، سعادت مند حضرات حضرتِ سیِّدُنا داوٗد علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام ہی کو سنتے جبکہ بَدبخت اَفراد گانے باجوں اور راگ رنگ کی مَحافل میں شرکت کرکے اپنی آخِرت خراب کرنے لگے۔ (ماخوذ از کشف المحجوب، ص457) مُوسیقی کا شرعی حکم: حضرتِ سیِّدُنا علّامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی فرماتے ہیں:(لچکے توڑے کے ساتھ) ناچنا، مذاق اُڑانا، تالی بَجانا (Clapping)،سِتار (Guitar) کے تار بجانا، بَربَط(Harp)، سارَنگی( (Sarangi، رَباب(Viola)، بانسری (Flute)، قانون(ایک قسم کا باجا)، جھانجھن، بِگل (Bugle) بجانا، مکروہِ تحریمی (یعنی قریب بہ حرام ہے) کیونکہ یہ سب کُفّار کے شِعار (طور طریقے) ہیں، نیز بانسری(Flute) اور دیگر سازوں کا سُننا بھی حرام ہے اگر اچانک سُن لیا تو معذور ہے اور اس پر واجِب ہے کہ نہ سُننے کی پوری کوشِش کرے۔(ردالمحتار،ج9،ص651) مقامِ افسوس: آج جدید ترین آلاتِ مُوسِیقی (Musical Instruments نت نئے گلوکاروں (Singers) اور طرح طرح کی دُھنوں(Tunes) کی وجہ سے گانے باجے کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ کہیں اس کو تَفریح (Entertainment) کا نام دیا جاتا ہے اور کہیں ثَقافت (Culture) کے نام پر تَحفُّظ دیا جاتا ہے۔ اس شیطانی کام کو اپنانے والے  گُزرے وقتوں میں عِزّت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے تھے، ان کو بھانڈ، گَوَیّااور ڈوم کہہ کر پُکارا جاتا تھا  لیکن زمانے نے رنگ بدلا اور ان کو فنکار، ایکٹر، سِنگر، میوزِک ڈائریکٹر کے نام سے عِزّت دی جانے لگی۔

مُوسِیقی کے 14نقصانات:

میوزِک دنیا وآخِرت دونوں کے لئے نقصان دہ ہے:

(1)موسیقی سننے کے آلات DVD پلیئر اور اسپیکر وغیرہ پر کثیررقم خرچ ہوتی ہے (2)جسمانی صحّت داؤ پر لگ جاتی ہے، ڈھول ڈھمکوں، جھانجنوں اور باجوں کی آوازیں مسلسل سننے کی بِنا پر کانوں کو نقصان پہنچتا ہے، رہی سہی کسر ہینڈفری یا ہیڈ فون پوری کردیتا ہے(3)سازوآواز پر مشتمل گانے صرف سُنے ہی  نہیں جاتے بلکہ  ویڈیو کی صورت میں دیکھے بھی جاتے ہیں، یوں موبائل،لیپ ٹاپ یا ٹی وی، ایل سی ڈی وغیرہ سے نکلنے والی شعائیں آنکھوں کی کمزوری، جلن اور خارش کا سبب بنتی ہیں  (4)گھنٹوں گانے سننے کی وجہ سے سردرد ہونے لگتا ہے اور دماغ دُکھنے لگتا ہے (5)گانے باجوں میں گزرنے والا وقت الگ سے ضائع ہوتا ہے حالانکہ یہی وقت مُفید(Useful) کاموں میں بھی خرچ کیا جاسکتا تھا (6) اس سے تعلیمی نقصان بھی ہوتا ہے کیونکہ جس کا دل گانے سننے میں لگ جائے وہ خاک پڑھائی کرے گا (7)مُوسِیقی جن اَشعار پر مُشتمل ہوتی ہے وہ بھی اپنا اثر جماتے ہیں اور انسان منفی سوچ (Negative Mentality)کا شکار ہوسکتا ہے ، اُداس رہنے لگتا ہے، نشے میں مُبتلا ہوسکتا ہے، بعض گانے خودکُشی (Suicide) پر اُبھارتے ہیں جن کو سُن کر خودکشی کرنے والوں کے بھی کئی واقعات ہیں

(8)عشقِ مَجازی کی تباہ کاریوں میں مُوسِیقی اور گانوں  کا بہت بڑا کردار ہے، ہجرووِصال، مَحبوب کے حُسن وجمال پر مُشتمل عِشقیہ گانوں کے بول موسیقی کے ساتھ سُن سُن کر نام نہاد عاشق کسی کام کے نہیں رہتے اور اپنی زندگی تباہ کربیٹھتے ہیں (9)جس گھر میں ایک فرد بھی میوزِک سننے کا شوقین ہوگا وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ڈبوسکتاہے، گھر میں عورَتیں اور بچّے بھی تو ہوتے ہوں گے ، وہ مُوسِیقی کے شیطانی اَثرات سے کیونکر بچ پائیں گے! (10)جب  کوئی شخص خود مُوسِیقی کا رَسْیا (شوقین) ہوگا وہ اپنے بچے کو کیونکر روکے گا! یوں یہ شیطانی شوق اگلی نسل (Next Generation)کو بھی منتقل ہو جائے گا  (11)مُوسِیقی اَخلاق کو بھی نقصان دیتی ہے چنانچہ  فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:گانا اور لَہو دل میں اس طرح ”نِفاق “اگاتے ہیں، جس طرح پانی سبزہ اگاتا ہے۔ قسم ہے اس ”ذات ِمُقدَّسَہ“ کی جس کے قبضہ ِقدرت میں میری جان ہے! بے شک قراٰن اور ذِکرُ اللہ ضرور دل میں اس طرح ایمان اُگاتے ہیں، جس طرح پانی سبز گھاس اگاتاہے۔( فردوس الاخبار،ج2،ص101، حدیث: 4204) (12) موسیقی بےحیائی میں مبتلا کردیتی ہے، جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا امام جلالُ الدّین عبدالرحمٰن سیُوطی شافِعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نَقْل فرماتے ہیں: گانے ( باجے) سے اپنے آپ کو بچاؤ! کیوں کہ یہ ”حیا“ کو کم کرتے، شَہوت کو اُبھارتے اور غیرت کو برباد کرتے ہیں اور یہ شراب کے قائم مقام ہیں، اس میں نشے کی سی تاثیر ہے۔(تفسیر درمنثور، پ21، لقمان:6،ج 6،ص506) (13)بعض بڑھاپے میں بھی گانے باجے سننے سے باز نہیں آتے اور توبہ کئے بغیر دنیا سے چلے جاتے ہیں جس کا قبروحشر میں نقصان ہوسکتاہے۔(14) گانوں باجوں کے اُخروی نقصانات میں سے  ایک نقصان ملاحظہ کیجئے،فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو گانے والی کے پاس بیٹھے، کان لگا کر دھیان سے سنے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ بروزِ قِیامَت اُس کے کانوں میں سِیسَہ(ایک دھات) اُنڈیلے گا۔ (تاریخ مدینہ دمشق،ج51،ص263) غور کیجئے! ہمارے کانوں میں اگر یہ پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے تو کتنی تکلیف ہوگی۔

ذرا سوچئے!: ٭بعضوں کا سفر میوزِک سنے بغیر نہیں گزرتا ایسوں کو سوچنا چاہئے کہ اسی حالت میں موت آگئی تو کیا گزرے گی! ٭کھانے کے وقت میوزک سننے کے شوقین کو اِحساس تک نہیں ہوتا کہ وہ جس رب عَزَّوَجَلَّ کی نعمتیں کھارہا ہے اُسی کی نافرمانی کررہا ہے٭شادی ہال میں میوزِک کی دھنیں بجانے پر اصرار کرنے والا دولہاغور تو کرے کہ اس کی زندگی کا نیا سفرشُروع اور نسل بڑھنے کا سامان ہورہا ہے، ایسے میں اُسے نیکیاں کرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حُضور خیروسلامتی کی دُعائیں مانگنی چاہئے لیکن یہ اس کی نافرمانی پر کمر باندھ رہا ہے ٭ بعضوں کو سوتے وقت میوزِک سننے میں بڑا مزہ آتا ہے، حدیثِ پاک  میں ہے: اَلنَّومُ اَخُو الْمَوت یعنی نیند موت کی بہن ہے،(مشکاۃ المصابیح ،ج2،ص336،حدیث:5654) ایسوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر نیند ہی نیند میں یہ موت کی وادی میں اُتر گئے تو اَنجام کیا ہوگا! قبرستان سے آنے والی خوفناک آواز: بعض لوگ خوشیاں منانے کے نام پر میوزِک فَنکشن کرتے ہیں، وہ اس حکایت سے سبق سیکھیں: حضرت سیِّدُنا کثیر بن ہاشِم سُلمِی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی فرماتے ہیں: بستی کے ایک شخص نے اپنی بیٹی کی شادی کے مَوقع پر اپنے گھر میں رَقص و سُرُود کی محفل برپا کی، اس گھر کے ساتھ ہی قبرستان تھا، رات کو جب یہ محفل اپنے جوبَن پر تھی تو اچانک لوگوں نے قبرستان سے ایک خوفناک آواز سنی جس سے ان کے دل دَہل گئے اور وہ ایسے خاموش ہوگئے گویا انہیں سانپ سونگھ گیا ہو، پھر قبرستان سے کسی نے یہ اشعار پڑھے:

یَااَھْلَ لَذَّۃِ لَھْوٍ لَاتَدُوْمُ لَھُمْ اِنَّ الْمَنَایَا تُبِیْدُ اللَّھْوَ وَاللَّعِبَا

کَمْ قَدْ رَاَیْنَاہٗ مَسْرُوْرًا بِلَذَّتِہٖ اَمْسٰی فَرِیْدًا مِّنَ الْاَھْلِیّٖنَ مُغْتَرِبَا

ترجمہ: اے لہو و لعِب کی ناپائیدار لذّتوں میں مُنہمِک لوگو! بے شک موت لہو و لعب کو ختم کردیتی ہے، کتنے ہی ایسے تھے جنہیں ہم نے اس لَذّت میں مست دیکھا مگر وہ اپنے ہمراہیوں سے جدا ہو کر دنیا چھوڑ گئے۔

خدا کی قسم! ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ دولہے کا اِنتقال ہوگیا۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا،ج6،ص57، حدیث:12)

سب سے بڑا نقصان: بعض گانے ایسے کفریہ اشعار پر مبنی ہوتے ہیں کہ جنہیں دلچسپی سے سننے والا، پڑھنے والا اور گانے والا ایمان جیسی اَنمول دولت سے محروم ہوجاتا ہے جس کی تفصیل امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رِسالےگانوں کے 35 کفریہ اشعارمیں دیکھی جاسکتی ہے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سُننا ہی ہے تو حمد، نعت اور مَنقبت وغیرہ کے اشعار جائز طریقے پر اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ سنئے، یہ آوازیں کانوں میں رَس بھی گھولیں گی اور آخِرت میں ذَریعہ نَجات بھی بنیں گی، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں میوزِک سننے اورگانوں کی ویڈیو دیکھنےسے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میں گانے باجوں اور  فلموں ڈِراموں کے گنہ چھوڑوں

پڑھوں نعتیں کروں اکثر تلاوت یارسول اللہ

(وسائل بخشش  مرمم،ص331)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭مدیر(Chief   Editor)ماہنامہ فیضانِ مدینہ،باب المدینہ کراچی۔

اپریل فُول (April fool)

یکم (1st)اپریل کو  نادان لوگ دوسروں کو پریشان کردینے والی جھوٹی خبر سُنا کر اور مختلف انداز سے دھوکا دے کر خوش ہوتے ہیں اور اسے اپریل فُول کانام  دیا جاتا ہے۔ اس قسم کا مذاق بسا اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے نیز اس سے مسلمانوں کو تشویش و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا اور ان کی دل آزاری بھی ہوتی ہے۔یاد رکھئے! کسی مسلمان سے  ایسا مذاق کرنا جس سے اس کی دل آزاری ہو، ناجائز و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔مزید معلومات  کے لئے مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ کتاب’’تکلیف نہ دیجئے‘‘ اور ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2017  میں ”اپریل فُول“ کے عنوان سےمضمون کا مطالعہ کیجئے۔


Share

Articles

Comments


Security Code