بیماری کے وُجودکےلئے یہ ضَروری نہیں کہ ہمیں اس کے وجود کا علم بھی ہو۔ بیسیوں بیماریاں ایسی ہیں جن میں مبتلا شخص موت کےکَنارے پہنچا ہوتا ہے، لیکن اسے مرض کی خبر تک نہیں ہوتی، جیسے کینسر، ایڈز اور ہیپاٹائٹس کا شکار بہت سے لوگوں کو مرض کا علم اُس وقت ہوتا ہے جب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپ کی زندگی تین یا چھ مہینے باقی رہ گئی ہے، یونہی اچھا بھلا آدمی اپنے کام کاج سے واپس آتا ہے، کھانا کھانے کے چند منٹ بعد باتیں کرتے کرتے اچانک سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے: ’’مجھے یہاں درد ہورہا ہے‘‘، گھر والے بھاگ کر ہسپتال لیجانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مریض زندگی کی بازی ہارچکا ہوتا ہےاورگھر والوں کو تب عِلْم ہوتا ہے کہ مرحوم کے دل کی شِریانیں بند تھیں، لیکن ایسی اَموات میں افسوس اُس وقت بڑھ جاتاہے جب مرض پیدا کرنے کے جُملہ اسباب پائے جارہے ہوں: گھی میں تَلی چیزیں صبح و شام کھانے کا معمول ہو، وزْن بڑھتا جارہا ہو، چلنا پھرنا مشکل ہو، وزن اٹھانے کا کوئی کام نہ ہوسکتا ہو، لیکن اس کے باوجود وہ شخص اپنا طرز ِ زندگی(Life Style) نہ بدلے اور صحّت پر توجہ نہ دے۔ ایسی صورت میں ہارٹ اٹیک سے کوئی مرجائے تو کہا جاتا ہے : اِس نے اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں ڈالا ۔
مُعاشَروں کی صورت ِ حال بھی ایسی ہی ہوتی ہے کہ اس کا وجود مُہلِک اَمراض کی وجہ سے تباہی کے کَنارے پہنچ چکا ہوتا ہے لیکن افراد کی اکثریت خوابِِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہی ہوتی ہے، پھر جب اچانک معاشرتی مرض کی کوئی خطرناک نشانی ظاہر ہوتی ہے تو ہر کوئی پکار اُٹھتا ہے کہ ہائے! یہ ہمارے معاشرے کو کیا ہوا؟ کیا ہم اتنے گر چکے ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے میں ایسے درندے پائے جاتے ہیں؟ یہ انسان نہیں، شیطان ہیں، بھیڑیے ہیں، جانور ہیں، وغیرہا، لیکن یہ سب باتیں خود کو بیوقوف بنانے کے سِوا کچھ نہیں، کیونکہ افراد کے مرض میں تو لاعلمی مانی جاسکتی ہے لیکن لاکھوں افراد پر مشتمل معاشرے میں ایک مرض گلی گلی پایا جاتا ہو، اُس کے اسباب و علامات سب نمایاں ہوں اورپھر بھی لوگ بے خبری کا دعویٰ کریں، تو یہ سراسر جھوٹ ہے۔
یہی صورت ِ حال ہمارے ہاں اِس وقت پائی جارہی ہے کہ برسوں سے جبری زیادتی، بچوں اور بچیوں کے ساتھ شیطانی حرکتوں کے واقعات رُونُما ہورہے ہیں، لیکن اکثریت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، بس چند دن احتجاج کیا، میڈیا نے ریٹنگ کی دوڑ لگائی، اور پھر ’’یاشیخ اپنی اپنی دیکھ‘‘ پر عمل پیرا ہوگئے۔ مسئلے کا حقیقی اور دیرپا حل تلاش کرنے میں دلچسپی ہے، نہ اس کی فرصت، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔
اب قصور شہر میں ایک نہایت بھیانک ، وحشیانہ اور ظالمانہ واقعہ ہوا جس کے خلاف پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی اور ’’پکڑو، مارو، لٹکاؤ، اُڑادو‘‘ کے نعرے مارنے لگی لیکن سُوال یہ ہے: کیا ایسا واقعہ پہلی مرتبہ ہوا ہے؟ کیا یہ کسی دوسرے ملک سے آئے شخص نے کیا ہے؟ کیا ہمارے ہاں مخصوص واقعہ کا مُرتکِب شخص ہی ایسی ذِہنیّت رکھتا ہے اور بقیہ تمام لوگوں کے ذِہْن تقویٰ و طہارت سے لبریز اور شرم و حیا سے مَعمُور ہیں؟ کیا ایسی بےحیائی اور سنگدلی کے حقیقی اسباب کا ہمیں علم نہیں؟ کیا اس کے اسباب کسی دوسری دنیا سے اُترکرآتے ہیں؟ افسوس کہ سب سُوالوں کا جواب ہمارے خلاف جاتا ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں، یہ بیرونِ ملک کے کسی شخص نے نہیں کیا، یہ صرف ایک ہی شخص ایسی گندی ذہنیت رکھنے والا نہیں ہے، اِس شیطانیت کے اسباب ہم پر پوشیدہ نہیں ہیں، ہماری اکثریت اُن اسباب کے خاتمے کی کوئی کوشش نہیں کررہی۔
گندی ویب سائٹس دیکھنے میں پہلے پانچ نمبروں میں رہنے والے ہمارے ملک کے کثیر باشندوں میں شرم و حیا اور تقویٰ و طہارت کس قدرپایا جاسکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ دو ٹوک الفاظ میں یہ بات واضح ہے کہ بچّوں سے زیادتی اور قتل کے پیچھے سب سے بڑا سبب بے حیائی کی کثرت ہے جس کے یقینی طور پر حقیقی اسباب یہ ہیں کہ ٹی وی اور اخبارات میں کار، موٹر سائیکل، مکان کے اشتہارات سے لے کرملبوسات، صابن، شیمپو، چائے، ٹافیوں تک کے اشتہارات بے پردہ عورتوں کی اُچھل کود یا شہوانی اداؤں سے مُزَیَّن ہیں، بلکہ ٹی وی چینلز کا کاروبارِ حیات اِسی بےحیائی سے بھرے اشتہارات پر چل رہا ہے۔ ملک میں روشن خیالی اور لِبرل اِزم کو پھیلانے کےلئے کنسرٹ(گانے بجانے کی محفل)، فلموں کے تشہیری پروگرام، فیشن شوز مُنعقد اور سینما کی رونقیں بحال کرنے کی پوری کوششیں کی جارہی ہیں۔ اخبارات کے ہفتہ واری میگزین کے سروَرَق جذبات بھڑکانے والی تصاویر کے بغیر چھپتے ہی نہیں۔ فلمیں اور ڈرامے، ناجائز محبتیں سکھانے اور شرم و حیا کو جِلا وطن کرنے کے مشن پر پوری تَنْدَہی کے ساتھ گامزن ہیں۔ خبریں سنانے کےلئے بھی نیوز کاسٹر کا سر دوپٹے سے خالی ہونا دِن بدِن ضروری ہوتا جارہا ہے۔ کھیلوں کاافتتاح و اِختتام، ناچنے اور نچانے والے پروگراموں کے بغیر شروع نہیں ہوسکتا۔ کھیل کے میدانوں کا مُوسِیقی سے گونجنا ضَروری ہے۔ کرکٹ کے ہر اہم سین پر بےحیا عورتوں کا عُریاں رقص ضروری ہے۔ انٹرنیٹ کا گندے سے گندا استعمال پوری سہولت سے مُیسَّر ہے۔ شَہوانی مناظر سے تسکین پانے کے لئے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس اور پیجز سے چِپکے رہناعام ہے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم، طلبہ و طالبات کے پارکوں میں اکٹھے گھومنے، درختوں کے نیچے بیٹھنے، کیفے ٹیریا میں مستی مذاق کئے بغیر پوری نہیں ہوتی۔ دوسری طرف اسکول کالج میں شرم و حیا، دین و اخلاق کی تعلیم کا فُقْدان اور لبرل اِزم کے چرچے ہیں، قرآن و سیرت کے مضامین برائے نام پڑھائے جاتے ہیں، اخلاقی تربیَت پر توجّہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس سارے منظر کو سامنے رکھ کر تَفَکُّر فرمالیں کہ قصور شہر جیسے واقعات ہوں گے یا نہیں؟ اور ایسے گھناؤنے واقعات کا حقیقی سبب بڑھتی ہوئی بے حیائی اور لبرل ازم کو پروان چڑھانے کی کوششیں ہیں یا نہیں؟ واقعات پر غم و غصّہ دِکھانے سے زیادہ اہم اُن کے اسباب کا تدارُک ہے، ورنہ یاد رکھیں کہ ایسے واقعات ہوتےرہیں گے اور بعید نہیں کہ یہ آگ دوسرے شہر سے آپ کے شہر اور وہاں سے آپ کے گھر تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے دین، ایمان اورعزّت و آبرو کی حفاظت فرمائے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: ’’تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور تم میں سے ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلّق پوچھا جائے گا‘‘۔ (بخاری،ج2،ص112، حدیث: 2409)
اصحاب ِ اقتدار، ٹی وی چینلز کے مالکان اورگھروں کے سرپرست غور کرلیں کہ قیامت میں کیا جواب دینا ہے! ’’اپنی نسلوں اور معاشرے کو بے حیائی سے بچانے کےلئے کچھ کیا تھا یا نہیں؟‘‘’’ہاں یا نہیں؟‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دار الافتاء اہلِ سنّت فیضان مدینہ ، باب المدینہ کراچی
Comments