ہر خطا تُو درگُزر کر بیکس و مجبور کی/ پردہ رُخِ انور سے جو اٹھا شبِ معراج/ سُونا جنگل رات اندھیری

حمد/مناجات

 

ہر خطا تُو درگُزر کر بیکس و مجبور کی

ہر خطا تُو درگُزر کر بیکس و مجبور کی

یا الٰہی! مغفِرت کر بیکس و مجبور کی

واسِطہ نُورِ محمد کا تجھے پیارے خدا

گورِ تِیرہ کر مُنوّر بیکس و مجبور کی

آپ کے میٹھے مدینے میں پئے غوث و رضا

حاضِری ہو یا نبی!ہر بیکس و مجبور کی

آمِنہ کے لال! صدقہ فاطِمہ کے لال کا

دُور شامِ رنج و غم کر بیکس و مجبور کی

بَہرِ خاکِ کَربلا ہوں دُور آفات و بلا

اے حبیبِ ربِّ داوَر! بیکس و مجبور کی

آپ کے قدموں میں گِر کر موت کی یا مصطفٰی

آرزو کب آئے گی بَر، بیکس و مجبور کی

نامۂ عطّار میں حُسنِ عمل کوئی نہیں

لاج رکھنا روزِ مَحْشر بیکس و مجبور کی


Share

ہر خطا تُو درگُزر کر بیکس و مجبور کی/ پردہ رُخِ انور سے جو اٹھا شبِ معراج/ سُونا جنگل رات اندھیری

نعت/استغاثہ

پردہ رُخِ انور سے جو اٹھا شبِ معراج

پردہ رُخِ انور سے جو اٹھا شبِ معراج

جنّت کا ہوا رنگ دوبالا شبِ معراج

اے رحمتِ عالَم تری رحمت کے تصَدُّق

ہر ایک نے پایا تِرا صدقہ شبِ معراج

مہمان بلانے کے لئے اپنے نبی کو

اللہ نے جبریل کو بھیجا شبِ معراج

جبریل تھکے ہوگئے سرکار روانہ

منہ تکتا ہوا رہ گیا سِدرہ شبِ معراج

مدّت سے جو ارمان تھا وہ آج نکالا

حُوروں نے کیا خوب نظارہ شبِ معراج

ممکن ہی نہیں عَقْلِ دوعالَم کی رسائی

ایسا دیا اللہ نے رُتبہ شبِ معراج

اُس میں سے جمیلِ رضوی کو بھی عطا ہو

رَحْمت کا بٹا خاص جو حصّہ شبِ معراج

)قبَالۂ بخشش،ص66(

از مداح الحبیب مولانا جمیل الرحمن قادری رضوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی


Share

ہر خطا تُو درگُزر کر بیکس و مجبور کی/ پردہ رُخِ انور سے جو اٹھا شبِ معراج/ سُونا جنگل رات اندھیری

کلام

 

سُونا جنگل رات اندھیری

سُونا جنگل رات اندھیری چھائی بَدْلی کالی ہے

سونے والو!جاگتے رَہیو چَوروں کی رَکھوالی ہے

آنکھ سے کاجَل صاف چُرالیں یاں وہ چور بَلا کے ہیں

تیری گٹھری تاکی ہے اور تُو نے نِیند نکالی ہے

سَونا پاس ہے سُونا بَن ہے سَونا زہر ہے اُٹھ پیارے

تُو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نِرالی ہے

تم تو چاند عرب کے ہو پیارے تم تو عجم کے سورج ہو

دیکھو مجھ بے کس پر شب نے کیسی آفت ڈالی ہے

شہد دِکھائے زہر پلائے،قاتِل،ڈائن،شوہرکُش

اس مُردار پہ کیا للچایا دُنیا دیکھی بھالی ہے

وہ تو نہایت سَستا سودا بیچ رہے ہیں جنّت کا

ہم مُفْلِس کیا مَول چُکائیں اپنا ہاتھ ہی خالی ہے

مولیٰ تیرے عَفْو و کرَم ہوں میرے گواہ صفائی کے

ورنہ رضا سے چور پہ تیری ڈِگری تو اِقبالی ہے

)حدائقِ بخشش ،ص185(

از امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن


Share

Articles

Comments


Security Code