کافروں کے استعمال شُدہ کپڑے بیچنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا پُرانے کپڑوں کا ٹھیلہ ہے اور اس میں کافروں کے بھی استعمال شدہ کپڑے ہوتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ پاک کے ساتھ ساتھ ناپاک کپڑے بھی ہوتے ہوں تو کیا اس طرح کپڑوں کو بیچنا جائز ہے ؟ اگر بالفرض کسی کپڑے کا ناپاک ہونا مجھے معلوم بھی ہو تواس کو بیچنا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: کپڑے پاک ہوں یا ناپاک دونوں صورتوں میں ان کا بیچنا جائز ہےالبتہ جب تک کپڑوں کا ناپاک ہونا معلوم نہ ہو ان کو پاک ہی سمجھا جائے گا۔ رہی بات کہ کسی کپڑے کے بارے میں آپ کو یقین کے ساتھ ناپاک ہونے کا علم ہے تب بھی اس کی خرید و فروخت تو جائز ہوگی لیکن خریدار کو ضرور بتایا جائے تا کہ وہ اسے پاک کیے بغیر استعمال نہ کرے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جمعہ کی کونسی اذان کے بعد کاروبار بند کرنے کا حکم ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جمعہ کے دن کونسی اذان پر کاروبار بند کرنے کا حکم ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی کاروبار بند کرنا اور جمعہ کے لئے سعی کرنا واجب ہے۔ اذان ہونے کے بعدخرید و فروخت کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ صدرُ الشریعہ، بدرُ الطریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ارشاد فرماتے ہیں: ’’پہلی اذان کے ہوتے ہی سعی واجب ہے اور بیع وغیرہ ان چیزوں کا جو سعی کے مُنافی ہوں چھوڑ دینا واجب، یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے اگر خرید و فروخت کی تو یہ بھی ناجائز اور مسجد میں خرید و فروخت تو سخت گناہ ہے۔“(بہار شریعت،ج1،ص775)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مسائل سیکھے بغیر تجارت یا ملازَمت کرنا کیسا ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص تجارت کے مسائل سیکھے بغیر تجارت کرتا ہے یا کوئی ملازم اجارے کے مسائل سیکھے بغیر ملازمت کرے تو اس کی کمائی حلال ہوگی یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: تجارت کرنے والے کے لئے تجارت کے اور ملازمت کرنے والے کے لئے ملازمت و اجارہ کے ضروری مسائل سیکھنا فرض ہے اور نہ سیکھنا گناہ ہے۔ البتہ کوئی بغیر مسائل جانے کاروبار یا نوکری کرتا ہے تو اگر کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جس سے روزی حرام ہو جاتی ہو تو ایسے شخص کی آمدنی کو حلال ہی کہیں گے۔اور اگر کوئی ایسی بات پائی جائے جس سے روزی حرام ہو جاتی ہے مثلاً کاروبار میں کم تول کر پورے پیسے لئے یا ملازمت میں چھٹی کرنے کے باوجود جھوٹی حاضری لگا کرتنخواہ لی تو اب اس قدر روزی حرام ہو گی جتنی قیمت کم تول کر اضافی وصول کی یا جو رقم جھوٹی حاضری کے دن کی اسے ملی۔ ضروری مسائل نہ جاننے والے کی مطلقاً پوری روزی حرام نہیں ہو تی۔البتہ یہ بات ہے کہ دینی مسائل نہ جاننے والے غلطیوں کے زیادہ مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ بَسا اوقات روزی بھی حرام ہو جاتی ہے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں پڑتا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ذخیرہ اندوزی کی تعریف اور اس کا حکم؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اِحْتِکار کا حکم کیا ہے اور اِحْتِکار کس کو کہتے ہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: اِحْتِکار سخت ممنوع،ناجائز و گناہ ہے، اس کی مذمّت پر کئی احادیث وارد ہیں۔
حضرتِ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:” جس نے مسلمانوں پر غلّہ روک دیا ،اللہ تعالیٰ اُسے جُذام (کوڑھ) اور اِفْلاس میں مبتلا فرمائے گا۔‘‘(مشکوٰۃالمصابیح،ج1،ص535،حدیث:2895)
اِحْتِکار کا لغوی معنیٰ ہے گِرانی کے انتظار میں کسی بھی چیز کا ذخیرہ کرلینا۔ جبکہ شریعت کی اصطلاح میں وہ چیز جو انسانوں یا جانوروں کی بنیادی خوراک ہے اسے اس نیت سے روک کر رکھنا کہ جب اس کی قیمت زیادہ ہوگی تب بیچیں گے بشرطیکہ نہ بیچنے سے لوگوں کوضرر ہو اور وہ چیز شہر یا شہر کے قریب سے خریدی ہو، یہ اِحْتِکار کہلاتا ہے۔ لہٰذا اگر اس کے نہ بیچنے سے لوگوں کو ضرر نہیں ہوتا، یا وہ چیز اس کی اپنی زمین کی ہے یا وہ دور سے خرید کر لایا ہے تو ان صورتوں میں روک کر رکھنا اِحْتِکار میں داخل نہیں۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن لکھتے ہیں: ’’غلّہ کو اس نظر سے روکنا کہ گِرانی کے وقت بیچیں گے بشرطیکہ اسی جگہ یا اس کے قریب سے خریدا اور اس کا نہ بیچنا لوگوں کو مُضِر ہو مکروہ و ممنوع ہے، اور اگر غلّہ دُور سے خرید کر لائے اور بانتظارِ گرانی نہ بیچےیا نہ بیچنا اس کا خلق کو مُضِر نہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،ج17،ص189)
صدرُالشریعہ، بدرُالطریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:”اِحْتِکار یعنی غلّہ روکنا منع ہے اور سخت گناہ ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ گِرانی کے زمانہ میں غلّہ خریدلے اور اُسے بیع نہ کرے بلکہ روک رکھے کہ لوگ جب خوب پریشان ہوں گے تو خوب گِراں کرکے بیع کروں گااوراگر یہ صورت نہ ہو بلکہ فصل میں غلّہ خریدتاہے اور رکھ چھوڑتا ہے کچھ دنوں کے بعد جب گِراں ہو جاتا ہے بیچتا ہے یہ نہ احتکار ہے نہ اس کی ممانعت۔ غلّہ کے علاوہ دوسری چیزوں میں اِحْتِکار نہیں۔ “(بہارِ شریعت،ج2،ص725)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جعلی پروڈکٹ بیچنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک کمپنی نے کوئی پروڈکٹ بناکر مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کی، اب کوئی دوسرا شخص اسی نام سے اس پروڈکٹ کی نقل بناتا ہے اور اصل کمپنی کا نام استعمال کرکے یہ نقلی پروڈکٹ مارکیٹ میں سستے داموں بیچ رہا ہے۔ ایسا کرنا کیسا ہے؟ نیز اس پروڈکٹ کو سپلائی کرنا اور دوکاندار کا اسے گاہک کو بیچنا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: کسی کمپنی کا نام استعمال کرکے جعلی پروڈکٹ بنانا اور خریدنے والے کو بتائے بغیر بیچ دینا حرام ہے کہ یہ دھوکہ ہے اور دھوکہ دے کر مال فروخت کرنا ناجائز و حرام ہے۔ مسلمان کی تجارت جھوٹ، وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی جیسے تمام خلافِ شرع امور سے پاک ہونا چاہیے۔بکثرت احادیث ان کاموں کی مذمّت میں وارد ہوئی ہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دار الافتااہل سنت نور العرفان ،کھارا در ،باب المدینہ کراچی
Comments