انسانی زندگی دُکھ سُکھ کا مجموعہ ہے ،انسان کبھی خوشی سے نہال ہوتا ہے تو کبھی پریشانی سے بدحال، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ خوشی ہمیشہ رہتی ہے نہ پریشانی !پھر کیا وجہ ہے انسان پریشانی میں اکثر اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے ! شاید اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی نظر صرف پریشانی پر ہوتی ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ ماضی میں کتنی پریشانیاں آئیں اوربالآخر چلی گئیں! دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ پریشانی کا ایک اختتامی وقت(Expiry Time) ہوتاہے مگر یہ پہلو ہماری نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ اس بات کو ایک حکایت سے سمجھئے:
40 منٹ کی فلائٹ: دودوست جہاز کے سفر پر روانہ ہوئے تو ان کے درمیان والی سیٹ پر موٹے اور بھدے جسم کا ایک مسافر بیٹھ گیا جس کے منہ سے ناگوار بُو بھی آرہی تھی۔ ایک دوست کھڑکی کی طرف سمٹ گیا اور سارے راستے شدید ٹینشن میں رہا، جب کہ اس کے برعکس دوسرے دوست نے اپنی پسندیدہ کتاب کھولی اور اسے پڑھنے میں مصروف ہوگیا، یہ کسی طرح بھی پریشان دکھائی نہیں دیتا تھاحالانکہ وہ موٹے مسافر کی وجہ سے آدھی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ۔ 40 منٹ بعد جب سفر ختم ہوا تو ٹینشن میں رہنے والے دوست نے دوسرے سے پوچھا کہ تم بڑے مزے سے کتاب پڑھ رہے تھے جیسے کسی لائبریری میں بیٹھے ہوئے ہو!کیا تمہیں اس مسافر کی وجہ سے پریشانی نہیں ہوئی !وہ کہنے لگا:شروع میں ہوئی تھی مگر میری عادت ہے کہ جب کوئی ٹینشن ہوتی ہے تو میں حساب لگا لیتا ہوں کہ اس کا دورانیہ(Duration) کتنا ہوسکتا ہے ؟یہی کام میں نے یہاں بھی کیا، جب میں نے دیکھا کہ یہ پریشانی صرف 40 منٹ کی ہے اس کے بعد وہ مسافر اپنی راہ لے گا اور ہم اپنی ! تو میں نے یہ چالیس منٹ گزارنے کے لئے خود کو کتاب پڑھنے میں مصروف کرلیا اور یوں ٹینشن سے قدرے بچا رہا۔
میرے نوجوان اسلامی بھائیو ! اگر ہم بھی اس انداز کو اپنا لیں تو ٹینشن سے کافی حد تک نجات(Salvation) پاسکتے ہیں۔ خیال رہے پریشانیوں کی نوعیت کے مطابق ان کا دورانیہ مختلف ہوسکتا ہے۔ ’’بائیک کی چابی نہیں مل رہی‘‘،’’بائیک پنکچر ہوگئی ہے‘‘، ’’بائیک چوری ہوگئی ہے‘‘ ان تینوں پریشانیوں کی نوعیت مختلف ہے لہٰذا ان کی ایکسپائری ڈیٹ بھی مختلف ہوگی۔ اگر ہم اپنا یہ ذہن بنالیں کہ یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا تو پریشانیوں کا سامنا کرنے میں زیادہ تکلیف نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر ہم پریشانی کو اپنے ذہن پر سوار کئے رکھیں گے تو سوائے ٹینشن بڑھنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک استاذ صاحب نے کلاس کے سامنے پانی کا گلاس اٹھایا اور پوچھا کہ اگر میں اسے دو منٹ اٹھائے رکھوں تو کیا ہوگا؟ طلبہ نے کہا: کچھ خاص نہیں ہوگا۔ ’’اگر دوگھنٹے اٹھائے رکھوں تو؟‘‘استاذ نے پوچھا تو طلبہ کہنے لگے:آپ کے بازو میں درد ہونے لگے گا۔استاذ صاحب نے پوچھا:اور یہی گلاس میں دودن تک اٹھائے رکھوں تو؟ طلبہ فوراً بولے آپ کا بازو اکڑ جائے گا۔ اب استاذ صاحب نے پوچھا: اب مجھے یہ بتاؤ، اس دوران گلاس کا پانی کم یا زیادہ ہوگا؟ طلبہ کا جواب تھا’’نہیں‘‘۔ استاذ صاحب نے سمجھایا کہ مشکلات بھی اس گلاس کی مانند ہوتی ہیں اگر ہم ان کو اپنے ذہن پر سوار کئے رکھیں گے تو ہماری ٹینشن بڑھتی ہی چلی جائے گی اور ہمارے بدن کو بھی نقصان ہوگا حالانکہ اس سے مشکلات میں کمی نہیں آتی!اور اگر ہم انہیں اپنے ذہن سے جھٹک دیں تو کم از کم مزید پریشانی سے تو بچے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں پریشانیوں سے نجات عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرّس مرکزی جامعۃ المدینہ ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments