تاجروں کے لیے
اسلامی نظامِ معیشت کی خوبصورتی
*مولانا سید عمران اختر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2023
حضرت سَیِّدُنا عُمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہ علیہ تقریباً ڈھائی سال یعنی 30 مہینے خلیفہ رہے مگر ناجائز آمدنیوں کی روک تھام ، ظُلم کے سدِّباب اور مال کی دیانتدارانہ تقسیم کے نتیجے میں ایک سال میں ہی لوگوں کے مالی حالات اتنے بہتر ہوگئے تھے کہ کوئی شخص بھاری رُقوم لاتا اور کسی اہم شخصیّت سے کہتا کہ آپ کی نظر میں جو ضرورت مند ہوں ان کو یہ مال دے دیجئے تو بڑی دوڑ دھوپ اور پوچھ گچھ کے بعد بھی کوئی ایسا آدمی نہ ملتا جسے یہ مال دے دیا جائے ، بالآخر اسے وہ مال واپس لے جانا پڑتا۔ )[1](یحییٰ بن سعید کا بیان ہے کہ حضرت سَیِّدُنا عُمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہ علیہ نے مجھے افریقہ میں صدقہ وُصول کرنے کے لئے بھیجا ، میں نے صدقہ وُصول کرکے فقرا کو تلاشا کہ ان پر تقسیم کردوں لیکن مجھ کو کوئی فقیر نہیں ملا کیونکہ حضرت سَیِّدُنا عُمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہ علیہ نے لوگوں کو دولت مند بنادیا تھا ، لہٰذا میں نے صدقہ کی رقم سے غلام خرید کر آزاد کردیئے۔)[2](یقیناً اُس دور کے ناقابلِ یقین حالاتِ معیشت کی اصل وجہ یہ تھی کہ سچائی اور دیانت داری کے ساتھ معاشیات میں اللہ اور اس کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بنائے گئے قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ آئیے ! معیشت کے اس اسلامی نظام کے چند خوبصورت پہلو ملاحظہ کیجئے :
ترکِ دنیا اور خالص دنیا داری میں اعتدال کا نظام
الحمد للہ دینِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو معاشیات میں ایسی تعلیمات دی ہیں جن پر عمل کرکے اہلِ اسلام دین اور دنیا دونوں ہی کو نہایت اعتدال و توازن کے ساتھ اپنا سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ احادیث و فقہ کی کتابوں میں اسلامی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ صرف باہمی معاملات اور کسب و معیشت کی رہنمائیوں ہی کے بارے میں ہے نیز دین و دنیا کو حسین امتزاج کے ساتھ لے کر چلنے کی عمدہ مثالیں ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان دو فرامین میں بھی ہیں :
( 1 ) جس نے خود کو سوال سے بچانے ، اپنے اہلِ خانہ کے لئے بھاگ دوڑ کرنے اور اپنے پڑوسی پر مہربانی کرنے کے لئے حلال طریقے سےدُنیا طلب کی وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔ )[3](
( 2 ) طَلَبُ کَسْبِ الۡحلَالِ فَرِيۡضَةٌ بَعۡدَ الۡفَرِيۡضَة یعنی حلال کمائی کی تلاش ( بھی ) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔)[4](
بے حسی کے بجائے احساس و ہمدردی کا نظام
اسلام نے معیشت و روزگار کے معاملے میں کاروباری شراکت کی بہت سی راہیں بیان کیں تاکہ تجارت و معیشت کے دائرے وسیع ہوں ، زیادہ سے زیادہ لوگ مَعاشی مَنافع سے مستفید ہوں ، نیز سنگ دلی و بے حسی کے تمام طریقوں پر بند باندھا اور مذمت بیان کی چنانچہ خرید و فروخت ، کرایہ داری یا ملازمت و مزدوری میں جب دو افراد کا معاملہ طے ہورہا ہو اور دو طرفہ رضامندی ہو تو اس دوران کسی تیسرے شخص کا مداخلت کرنا اور ان کے سودے کو توڑنے کے لئے سودے پر سودا کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔)[5](یونہی بیرونِ شہر سے آنے والے تجارتی سامان و رَسد کو شہری بازار پہنچنے سے پہلے ہی خرید لینے کی ممانعت بیان فرمائی گئی۔)[6](تاکہ بیرونی تاجروں اور شہر والوں کو خریدار کی ممکنہ بے حسی سے بچایا جاسکے۔
ذخیرہ اندوزی سے پاک نظام
ذخیرہ اندوزی کو لوگوں کی مجبوریوں کی سوداگری بھی کہہ سکتے ہیں ، کیونکہ اس طریقۂ معیشت کے ذریعے مالدار اجناس وغیرہ کو بڑے پیمانے پر خرید کر بازار پہنچنے سے روک لیتے ہیں اور جب بازار ان اشیاسے خالی ہوجاتے ہیں نیز لوگ کسی بھی قیمت میں ان چیزوں کو خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو مجبوری کا فائدہ اٹھاکر ان چیزوں کی من مانی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں ، فی زمانہ روزمرّہ کی کئی چیزوں میں غریب مسلمانوں کو اسی ذخیرہ اندوزی کے وبال کا سامنا ہے ، الحمد للہ اسلام کا نظامِ معیشت اس طریقے کی مذمت و ممانعت بیان کرتا ہے جیساکہ حضور علیہ السّلام نے ارشادفرمایا : جس نے مسلمانوں پر کھانے کی چیزوں کا احتکار کیا ، تو اللہ تعالیٰ اس کو جذام اور افلاس میں مبتلا کرے گا۔)[7](
کھری اور ستھری سودے بازی کا نظام
راہِ معیشت میں اگر لوگوں کا ایک دوسرے سے بھروسا و اعتماد ختم ہوجائے تو معیشت کی عمارت بہت جلد زمین بوس ہوسکتی ہے ، الحمدللہ اسلام نے زندگی کے تمام مراحل کے ساتھ ساتھ معاشی اعتماد و بھروسے کو قائم رکھنے کیلئے بھی بہت سے انتظامات فرمائے جن میں بددیانتی ، دغابازی ، جھوٹ ، جھوٹی قسموں ، وعدہ خلافیوں اور ملاوٹ پر سخت پہرے لگانا بھی ہے۔ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے تاجروں کے گروہ ! جھوٹ سے بچو۔)[8]( ( جھوٹی ) قسم ، سامان کوفروخت کروانے والی لیکن کمائی کومٹانے والی ہے۔)[9](بےشک سب سے زیادہ پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی ہے جوبات کریں تو جھوٹ نہ بولیں ، جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں ، جب وعدہ کریں تو اس کی خلاف ورزی نہ کریں ، جب کوئی چیز خریدیں تو اس میں عیب نہ نکالیں ، جب کچھ بیچیں تو اس کی بیجا تعریف نہ کریں ، جب ان پر کسی کا کچھ آتا ہو تو اس کی ادائیگی میں سُستی نہ کریں اور جب ان کا کسی اورپرآتا ہوتو اس کی وُصولی کے لئے سختی نہ کریں۔)[10](جس نے ملاوٹ کی وہ ہم ميں سے نہيں۔)[11](
اسلامی نظامِ معیشت کو اگر صحیح معنوں میں رائج کیا جائے اور لوگ تجارت کے معاملے میں اسلامی اصول اور قوانین کو اپنائیں تو چیزوں کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی لائی جاسکتی ہے ، نیز اسلام سود کو حرام قرار دیتا ہے اور جب سود نہیں ہوگا تو اشیا کی قیمتیں ان کی اصل لاگت سے بے تحاشا بڑھانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
[1] حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز کی 425حکایات ، ص458
[2] حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز کی 425حکایات ، ص۴۵۹
[3] مصنف ابن ابی شيبۃ ، 11/ 379 ، حديث : 22625
[4] شعب الایمان ، 6/420 ، حدیث : 8741
[5] مسلم ، ص 626 ، حدیث : 3811 ، 3813
[6] مسلم ، ص 626 ، حدیث : 3819
[7] ابن ماجہ ، 3 / 14 ، حدیث : 2155
[8] معجم کبیر ، ص56 ، حدیث : 132
[9] سنن نسائی ، ص 723 ، حدیث : 4468
[10] شعب الایمان ، 4/221 ، حدیث : 4854
[11] ترمذی ، 3 / 57 ، حدیث : 1319
Comments