سونے کا جانور/ بچّو!ان سے بچو/ مغرور چیونٹی/ دوست کی مدد

فِرعون کے ’’دریائے نِیل‘‘ میں ڈوب جانے کے بعد جب حضرتِ سیّدنا موسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل کے ساتھ ’’مِصْر‘‘  آئے تو اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ’’تورات شریف‘‘ عطا کرنے کا وعدہ فرمایا اور اس کےلئے ’’کوہِ طُور‘‘ پر 40 دن ٹھہرنے  کا حکم  دیا، چنانچہ آپ علیہ السّلام ’’کوہِ طُور‘‘ پرتشریف لے گئے۔ ([1]) سامِری کون تھا؟ بنی اسرائیل میں ’’سامِری‘‘ نام کا ایک شخص تھا جسے اُس کی ماں نے پیدا ہوتے ہی ایک غار میں چھوڑ دیا تھا، بچپن میں اسے حضرتِ سیّدنا جبریل علیہ السّلام اپنی اُنگلی سے دودھ پلاتے تھے جس کی وجہ سے سامِری اُنہیں پہچانتا تھا۔ یہ نہایت گمراہ اور گمراہ کُن(یعنی گمراہ کرنے والا)آدمی تھا۔([2])اسےسونا چاندی ڈھالنے(یعنی انہیں  پگھلا کر چیزیں بنانے) کا کام آتا تھا، لوگ اس کی بات کو اہمیت دیتے اور عمل کرتے تھے۔سونے چاندی کا بچھڑا حضرتِ سیّدنا موسیٰ علیہ السّلام کے جانے کے 30دن بعد سامِری نے بنی اسرائیل سے زیورات جمع کئے اور انہیں پگھلا کر ایک بچھڑا بنادیا۔ اس کے پاس اُس جگہ کی مٹّی تھی جس جگہ حضرتِ سیّدنا جبریل علیہ السّلام کے گھوڑے نے قدم رکھا تھا۔ اس نے جیسے ہی وہ مٹّی بے جان بچھڑے میں ڈالی تو وہ گائے کی طرح آواز نکالنے لگا۔ ([3]) بچھڑے کی پوجا اِس کے بعد سامِری نے لوگوں کو بہکانا شروع کردیا کہ یہ بچھڑا تمہارا اور موسیٰ علیہ السّلام کا خدا ہے،([4]) چنانچہ اس کے بہکاوے میں آکر بنی اسرائیل میں سے 12 ہزار لوگوں کے سِوا سب نےبچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ بچھڑے کا حشر حضرتِ سیّدنا موسیٰ علیہ السّلام (جب کوہِ طور سے) واپس تشریف لائے تو شدید غصّے میں تھے، کیونکہ آپ کو سامِری کی حَرَکت  کے بارے میں خبر مل چکی تھی۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام نے قوم  کو سَرزَنِش کی(یعنی ڈانٹا) ([5]) اور سامِری سے بہکانے کی وجہ پوچھی، وہ بولا: میرا دل چاہا اِس لئے میں نے ایسا کیا۔ یہ سُن کر آپ علیہ السّلام نے فرمایا: دفع ہوجا! تیری سزا یہ ہے کہ جو بھی تجھ سے ملنا چاہے گا تو تُو کہے گا: ’’کوئی مجھے نہ چھوئے‘‘ مزید آپ نے اُسے آخِرت کے عذاب کی بھی خبر دی([6])اور بچھڑے کو توڑ پھوڑ کر جلانے کے بعد ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہادیا۔([7]) سامِری کی سزا لوگوں کو سامِری سے ملنا، بات چیت کرنا وغیرہ منع ہوگیا، اگر کسی کا جسم اتّفاقاً اس کے جسم سے چھو جاتا تو دونوں کو  شدید بخار ہوجاتا، وہ جنگل میں یہی شور مچاتا پھرتا تھا کہ ’’کوئی مجھے نہ چھوئے‘‘۔([8]) قوم کی سزا  بچھڑے کی پوجا کرنے والوں میں سے کچھ لوگوں کو قوم کے ہاتھوں قتل ہونے کی سزا ملی۔ یہ دیکھ کر آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک سے باقی افراد کو معاف کرنےکی اِلتِجا کی جو قبول ہوئی، چنانچہ باقی افراد کو معاف کردیا گیا۔ ([9])

حکایت سے حاصل ہونے والے مدنی پھول

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! ٭اللہ پاک کے نبی شفیق و مہربان ہوتے ہیں٭ان کی شفاعت سے اُمّت کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ٭نبی کی نافرمانی سے گناہ ملتا اور عذاب آتا ہے ٭ہمیں چاہئے کہ نبیِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فرمانبردار غلام اور سچے عاشق بنیں، تاکہ دنیا و آخِرت میں ہمارا مستقبل روشن ہو۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ذمّہ دار شعبہ ،فیضان امیر اہل سنت ،المدینۃ العلمیہ،باب المدینہ کراچی



[1] ۔۔۔ صراط الجنان،ج1،ص124،125 ملخصاً

[2] ۔۔۔ عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص 114 ملخصاً

[3] ۔۔۔ صراط الجنان،ج3،ص434،435 ملخصاً

[4] ۔۔۔ ایضاً،ج6،ص230 ملخصاً

[5] ۔۔۔ ایضاً،ج3،ص435 ملخصاً

[6] ۔۔۔ ایضا،ج6،ص236 ملخصاً

[7] ۔۔۔ عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص 115، 116ملخصاً

[8] ۔۔۔ صراط الجنان،ج6،ص236 ملخصاً

[9] ۔۔۔ ایضاً،ج1،ص126ملخصاً۔


Share

سونے کا جانور/ بچّو!ان سے بچو/ مغرور چیونٹی/ دوست کی مدد

ہمارے پیارے وطن پاکستان میں گرمی کے موسم میں دو یا اس سے زیادہ مہینوں کیلئے بشمول ’’دارُالمدینہ(دعوتِ اسلامی)‘‘ اسکولوں میں چھٹیاں دی جاتی ہیں، کچھ علاقوں میں سردی زیادہ پڑتی ہے وہاںسردیوں میں چھٹیاں دی جاتی ہیں۔

پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو! کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے ہمیں چھٹیوں میں بچنا چاہئے:

(1) ”چھٹیوں کے کام میں سُستی کرنا“ٹیچرز چھٹیوں کا کام (Vacations Home Work) دیتے ہیں، ہمیں وہ کام پورا کرنا چاہئے، دن کا کچھ ٹائم فکس کرلیں کہ میں روزانہ اس ٹائم میں اتنا ہوم ورک کروں گا، اس کے بعد ہی کوئی اور کام کروں گا۔

(2) ”گھومنے پِھرنے کی ضِد کرنا“ چھٹیوں میں زیادہ گھومنے پِھرنے کی ضِد نہ کریں، چھٹیاں ہمیں ملی ہیں ابّو یا بڑے بھائی کو نہیں ، اُنہیں کام پر جانا ہوتا ہے،  اگر ہم گھومنے پِھرنے کی ضِد کریں گے تو اُنہیں پریشانی ہوگی۔

(3) ”شرارتیں کرنا اور گھر والوں کو تنگ کرنا“چھٹیوں میں کچھ بچوں کی شرارتیں بہت بڑھ جاتی ہیں، طرح طرح کی شرارتیں اور حرکتیں کرتے ہیں اور گھر والوں کی ناک میں دَم کردیتے ہیں، چھوٹے بہن بھائیوں کو تنگ کرتے ہیں، گھر کی چیزیں خراب کردیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بہت غلط بات ہے، اس سے ہمارے بہن بھائیوں کو اور گھر والوں کو تکلیف ہوتی ہے، ہمیں چھٹیوں میں اور چھٹیوں کے علاوہ بھی شرارتوں سے اور دوسروں کو تکلیف دینے سے بچنا چاہئے۔

(4) ”چھٹیوں کے بعد نئی اسٹیشنری اور نئے اسکول بیگ کی ضِد کرنا“ جب چھٹیاں ختم ہوتی ہیں اور دوبارہ کلاسز لگتی ہیں تو کچھ بچّے امّی ابّو سے ضِد کرتے ہیں کہ ہمیں نیا بیگ دِلائیں، پنسل شارپنر وغیرہ نیا دِلائیں، حالانکہ یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہوتی ہیں، بیگ بھی بالکل صحیح سلامت ہوتا ہے۔ اچّھے بچّوں کو ایسی ضِد نہیں کرنی چاہئے بلکہ جو سامان ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے اُسی کو استعمال کریں۔

(5)”چھٹیوں میں کتابوں، کاپیوں اور اسٹیشنری کی حفاظت نہ کرنا“ چھٹیوں میں اپنی کتابوں، کاپیوں، پینسل، ربڑ، شارپنر وغیرہ سب چیزوں کی حفاظت کریں، بے پروائی سے اِدھر اُدھر نہ ڈالیں، ورنہ سب چیزیں گُم ہوجاتی ہیں یا خراب ہوجاتی ہیں، پھر جب اسکول لگتے ہیں تو ایک ایک چیز ڈھونڈنی پڑتی ہے یا نئی خریدنی پڑتی ہے۔

(6) ”چھٹیوں کے بعد اور چھٹیاں کرنا“ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد جب اسکول کھلتے ہیں اور کلاسز لگنا شروع ہوجاتی ہیں تو کچھ بچے اپنی طرف سے مزید چھٹیاں کرتے ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہئے اس سے پڑھائی میں حرج ہوتا ہے اور ریکارڈ بھی خراب ہوتا ہے۔

(7) ”دوبارہ اسکول جانے میں سستی کرنا“ چھٹیوں کے بعد جب اسکول کھل جاتے ہیں تو بعض اوقات کئی دن تک سستی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، صبح دیر تک سونا، دیر سے اسکول جانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ اچھا انداز نہیں ہے، دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے وقت کی پابندی کرتے ہیں۔

 اے ہمارے پیاے اللہ! ہمیں اچھے انداز میں چھٹیاں گزارنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں دین ودنیا کی کامیابی عطا فرما۔  اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭شعبہ تراجم،المدینۃ العلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

سونے کا جانور/ بچّو!ان سے بچو/ مغرور چیونٹی/ دوست کی مدد

ایک بوڑھی چیونٹی جس کا نام ڈولی تھا،غرور و تکبر کی وجہ سے اکیلی رہتی اور کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت اسے بھوک لگی، وہ کھانے کی تلاش میں گھر سے باہر نکلی تو راستے میں چینی کا ایک بڑا دانہ نظرآیا جسے دیکھتے ہی اس کے منہ میں پانی آگیا۔ بس پھر کیا تھا، وہ جلدی سے آگے بڑھی اور اسے اپنے گھر کی طرف کھینچنے لگی۔ اس دوران جو چیونٹی اس کے پاس سے گزرتی یہ تکبر  کی وجہ سے اپنا منہ دوسری طرف پھیرلیتی اور بات نہ کرتی، لیکن اتنا بڑا چینی کا دانہ اور اوپر سے تیز دھوپ! مغرور چیونٹی جلد ہی تھک گئی۔ اچانک اسے پڑوسن چیونٹی کے دو بچے چُنّو مُنّو اپنی جانب آتے دکھائی دیئے۔ جب وہ دونوں اس کے پاس پہنچے تو احتراماً اس كا حال چال پوچھا۔ اس نے بجائے جواب دینے کے تکبر کی وجہ سے منہ بنا کر کہا: ”اونہہ“ اور بڑ بڑانے لگی:بڑے آئے حال پوچھنے! خیریت دریافت کرنے کے بہانے میرا چینی کا دانہ لینے کے چکر میں ہیں۔ ڈولی چینی کے دانہ کے ساتھ اپنے گھر کی طرف تھکی ہاری جارہی تھی۔ گھر سے تھوڑے فاصلے پراس کا پیر مڑ گیا اور پاؤں میں موچ آگئی، دردکی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگےاور وہ راستے میں ہی چینی کے دانے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اسی حالت میں اسے دوپہر سے شام ہوگئی ۔ شام کو چُنو مُنو جب اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کر واپس آرہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ڈولی ابھی تک اپنے چینی کے دانے کے ساتھ راستے میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ جب وہ اس کے پاس سے گزر کر آگے جانے لگے تو ان کے کانوں میں کسی کےرونے کی آواز آئی۔ دونوں نے گردن گھما کر اِدھر اُدھر دیکھا تو کوئی اورنظر نہیں آیا اچانک انہیں ڈولی کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو نظر آئے۔ دونوں آگے بڑھے اور بولے :ارے آنٹی! آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو کیسے؟ ڈولی روتے ہوئے بولی: میرے پیر میں موچ آگئی ہے جس کی وجہ سے میں دوپہر سے یہیں بیٹھی ہوں اور گھر بھی نہیں جاسکتی۔چُنو جلدی سے بولا: آپ فکر مت کریں ، ہم دوسروں کولے کر ابھی آتے ہیں۔ یہ کہہ کر دونوں گھر کی طرف بھاگے اور کچھ ہی دیر میں اپنی امی، باجی اوربرابر والی خالہ (چیونٹیوں)کو لے کر آپہنچے۔ان سب نے ڈولی کواُٹھایا اوراس کے گھر لے آئےاور آرام سے لٹا دیا۔خالہ نے ڈولی کے پاؤں پر مرہم لگاکر پٹی باندھ دی، دوسری طرف چُنو مُنو چینی کے دانے کو اپنے دوستوں کے ساتھ اٹھا لائے اور گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا، ڈولی اپنے پچھلے سلوک پر بہت شرمندہ تھی اور سب سے اپنے بُرے انداز کی معافیاں مانگنے لگی۔ سب نے اسے معاف کردیا،آج اسے معلوم ہوگیاکہ اچھے اخلاق اور ملنساری میں بہت فائدہ ہے، غرور و تکبر میں کچھ نہیں رکھا۔

پیارے پیارے مدنی منّواور مدنی منّیو!ہمیں بھی اچھے اخلاق والا اور ملنسار ہونا چاہئے۔سب سے مسکراکر ملنا چاہئے، مسکرانا ہمارے پیارے نبیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بہت ہی پیاری سنّت ہے جبکہ غرور کرنا اور منہ چڑھا کر سب سے الگ تھلگ رہنا اچھی بات نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ غرور و تکبر کی بری عادت سے خود کو بچائیں اور اچھے اخلاق کو اپنائیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…مدرِّس جامعۃ المدینہ ،فیضان ابو حنیفہ ،باب المدینہ کراچی


Share

سونے کا جانور/ بچّو!ان سے بچو/ مغرور چیونٹی/ دوست کی مدد

چُھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسکول میں پہلا دن تھا سب بچے نئے یونیفارم اور نئے جوتے پہنے ہوئے تھےٹیچرجونہی کلاس رُوم میں داخل ہوئے سب بچے اِحتراماً کھڑے ہوگئے، پڑھائی کا آغاز ہونے کے کچھ دیر بعد پرنسپل صاحب نے حامد کو اپنے آفس میں بلوالیا،پرنسپل: سب بچے نیا یونیفارم اور نئے جوتے پہن کر آئے  ہیں آپ کا یونیفارم  اور جوتے نئے کیوں نہیں ہیں؟ حامد: میری  امّی نے کہا تھا کہ کچھ دن بعد یونیفارم اور جوتے خریدلیں گے، پرنسپل: یہ چیزیں تو پہلےسے خریدنی تھیں، کیا آپ کےوالدین  کو آپ کا کوئی احساس نہیں ہے؟ حامد: پچھلے مہینے ایکسیڈنٹ میں ابّو کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی پلاسٹر کھلنے میں 3 مہینے لگیں گے، پرنسپل: اپنی امّی کے ساتھ جاکر خریداری کرلیں! آپ کے پاس 2 دن کا وقت ہے،حامد: مگر میری بات تو سنئے!!! پرنسپل: 2دن بعد آپ کو کلاس رُوم میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی، اب آپ جاسکتے ہیں۔ حامد خاموشی سے سَر جھکائے آفس سے باہر آگیا، ہاف ٹائم میں سب بچے کھیل کود اور کھانے پینے میں مصروف تھے لیکن حامد کلاس رُوم میں بیٹھا رو رہا تھا، اتنے میں سلیم اندر داخل ہوا، سلیم: حامد میرے دوست کیوں رو رہے ہو؟ حامد: میرے ابّو کی ٹانگ پر پلاسٹر بندھا ہوا ہےجس کی وجہ سے ابّو کام پر نہیں جارہے، گھر میں جو کچھ جمع ہے اسی سے تھوڑا تھوڑا کرکے کھا رہے ہیں، مگر نیا یونیفارم اور نئے جوتے 2 دن تک نہ آئے توکلاس میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا، اب میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں؟ سلیم حامد کی بات سُن کر کافی اَفسُردہ ہوگیا۔شام کی چائے کے وقت  سلیم نے اپنے ابّو سےکہا:ابّو!  میرا نیا یونیفارم اور جوتے آپ نے کتنے میں خریدے تھے؟ ابّو: 1500روپے کے،  لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟سلیم نے ابّو کو ساری بات بتادی سلیم: میں چاہتا ہوں کہ آپ حامد کےلئے کچھ کریں، ابّو: ہم امیر  نہیں ہیں، پھر اس کی مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ سلیم:مدد کیلئے امیر ہونا ضروری تو نہیں ہے، آپ کوشش کریں تو شاید اتنی گنجائش نکل آئے کہ اس کی مدد ہوجائے ؟ ابّو: بیٹا! آپ جانتے ہیں کہ میں جاب کرتا ہوں، اس مہینے آپ  اور آپ کے بہن بھائیوں کے یونیفارم،کتابیں کاپیاں وغیرہ خریدنے پر کافی رقم خرچ ہوگئی ہے اس لئے حامد کی مدد کرنا میرے لئے مشکل ہے، سلیم : ابّو! آپ مکتبۃُ المدینہ کی ایک کتاب ” بہتر کون“ لائے تھے،اس میں ہے کہ حضرت ِسیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی  عنہا نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللّٰہ تعالٰی  علیہ وآلہ وسلَّم میں عرض کی: یارسولَ اللّٰہ! جنّت کی وادیوں میں اللّٰہ پاک کی رَحمت کے قُرب میں کون ہوگا؟ پیارے آقا صلَّی اللّٰہ تعالٰی  علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو میری سنّت کو زندہ کرے اورمیرے پریشان اُمّتی کی تکلیف دور کرے۔(بہتر کون، ص:129) ابّو! آپ ہی توہمیں سمجھاتے ہیں کہ پریشان حالوں کی مدد کرنا اور ان کی پریشانیاں دور کرنااچھے  لوگوں کا طریقہ ہوتا  ہے اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب کسی غریب انسان کی مدد کی جاتی ہےتومدد کرنے والے کو ایسی خوشی ملتی ہےجسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور اسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے یہ سعادت ملے،سلیم کی باتیں سُن کر ابّو کو بہت خوشی ہوئی کہ ان کی مَدَنی تربیت کی جھلک ابھی سے نظر آرہی تھی ،  ابّو نے سلیم کی امّی کی طرف دیکھا، امّی: سلیم ٹھیک کہہ رہا ہے، ہم امیر نہیں تو کیا ہوا لیکن اتنے غریب بھی نہیں ہیں کہ کسی کی تھوڑی سی بھی مدد نہیں کرسکتے،ابّوایک جھٹکے سے کھڑے ہوئے اور سلیم کا ہاتھ پکڑ کر بولے: چلو سلیم بیٹا ! ہم آج ہی حامد  کیلئے نیا یونیفارم اور جوتے خریدیں گے، نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ کچھ دیر بعد سلیم اور اس کے ابو حامد کے گھر کے دروازے کی بیل بجارہے تھے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code