ہند کے ایک شہر میں ایک مر تبہ بارش نہیں ہورہی تھی۔ لوگ بہت پریشان تھے، بالآخر یہ طے ہوا کہ اس شہر کے مشہور مولانا صاحِب سے دُعا کا عرض کیا جائے۔ مولانا نے لوگوں کو ساتھ لیا اور عید گاہ میں پہنچے اور نمازِ اِسْتِسْقا (بارش کے لئے پڑھی جانے والی نماز) ادا کی۔ بعدِ نمازجب دُعا کے لئے ہاتھ اٹھائے گئے تو لوگوں نے دیکھا کہ کہ یکایک بادل اُمَنڈ آئے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ اس روز کے بعد لگاتار بارش ہوتی رہی یہاں تک کہ شہر کا قحط دور ہوگیا۔(مولانا نقی علی خان ا ز مولانا شہاب الدین ص53،52ملخصاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہندوستان کے اس شہر کا نام بریلی شریف اور ان مولانا کا نام حضرت علّامہ مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰنہے جو کہ امامِ اہلِ سنّت،اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کے والدِ گرامی اور ایک عظیم عِلمی و روحانی شخصیت ہیں۔ اہلِ عِلم آپ کو رئیسُ المتکلمین اور رئیسُ الاَتْقِیا کے القابات سے یاد کرتے ہیں۔
ولادتِ باسعادتآپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت 1246ھ جُمادَی الاُخریٰ کی آخِری یا رَجَبُ المُرَجَّب کی پہلی تاریخ کو بریلی شریف میں ہوئی۔
تعلیم آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ساری تعلیم اپنے والدِ ماجد مولانا رضا علی خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن سے حاصل کی جو اپنے زمانے کے زبردست عالمِ دین تھے۔ (جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص6)انہیں کے زیرِ سایہ فتویٰ نویسی کا آغاز فرمایا۔والدِ محترم کے انتقال کے بعد 1282ھ بمطابق1865ء سے وصال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ افسوس کہ آپ کے فتاویٰ جات الگ سے جمع نہ ہوسکے۔(مولانا نقی علی خان از مولانا شہاب الدین، ص 30،29 مفہوماً)
اولادِ امجاد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے تین شہزادے اور تین شہزادیاں تھیں، شہزادوں کے نام یہ ہیں:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، مولانا حسن رضا خان اورمولانا محمد رضا خان۔ (ایضاً، ص38)
بیعت و خلافت5جُمادَی الاُولٰی1294ھ کو اپنے صاحبزادے (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) کے ساتھ مارہرہ مطہرہ حاضر ہوئے اور خاتمُ الاکابر سیّدنا شاہ آلِ رسول رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے شرفِ بیعت حاصل کیا ۔مرشِدِ گرامی نے اُسی مجلس میں باپ اور بیٹے دونوں کو تمام سَلاسِل کی خلافت بھی عطا فرما دی۔
(علامہ مولانا نقی علی خان حیات اور علمی و ادبی کارنامے، ص 51)
سفرِحرمینِ طیبین 1295ھ میں آپ علیل تھے۔خواب میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت سے مشرف ہوئے تو سفرِ حج کا ارادہ فرمایا۔ بعض اَحباب نے بیماری کی وجہ سے اگلے سال حاضری کا مشورہ دیا تو ارشاد فرمایا : مدینہ طیبہ کے قصد سے قدم دروازہ سے باہر رکھوں پھر چاہے روح اُسی وقت پرواز کر جائے۔ اس سفر میں اعلیٰ حضرت عزت علیہ رحمۃ ربِّ العزت بھی ہمراہ تھے۔وہاں کئی علما سے ملاقاتیں رہیں اور ان سے سندِ حدیث حاصل فرمائی۔ (جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص10)
تصانیفآپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سیرت، عقائد، اعمال اور تصوّف وغیرہ کے موضوع پر شاندار کُتُب تحریر فرمائیں۔ آپ کی تقریباً 26تصانیف کے نام ملتے ہیں۔ چند کے نام درج ذیل ہیں۔(1)جَوَاہِرُالْبَیَان فِی اَسْرَارِ الْاَرْکَان (2)اَلْکَلامُ الْاَوْضَح فِی تَفْسِیرِ سُوْرَۃ اَلَمْ نَشْرَح (3)سُرُوْرُ الْقُلُوبِ فِی ذِکْرِ المَحْبُوب (4)اُصُولُ الرَّشَاد لِقَمْعِ مَبَانی الْفَسَاد (5)ہِدَایَۃُ البَرِیَّہ اِلی الشّرِیعَۃِ الاَحمَدِیَّہ (6)اِذَاقَۃُ الاَثَامِ لمانعی عمل المولد والقیام (7)اَحْسَنُ الوِعَا لِآدَابِ الدُّعَا (8)فَضْلُ العِلْمِ وَالعُلَمَا(مولانا نقی علی خان ا ز مولانا شہاب الدین،ص 39،جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص7، 8)
وصال مبارک ذوالقعدۃ الحرام 1297ھ بمطابق 1880ء بروز جمعرات 51برس، 5ماہ کی عمر میں وصال فرمایا اور والدِ محترم کے پہلو میں دَفْن ہوئے۔(جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص10)
آخِری کلام وتحریراعلٰیحضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت فرماتے ہیں کہ پچھلا (یعنی آخری )کلمہ کہ زبانِ فیضِ ترجمان سے نکلا لفظ”اللہ“ تھا اور اَخِیر تحریر کہ دستِ مبارک سے ہوئی!بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم تھی کہ انتقال سے دو روز پہلے ایک کاغذ پر لکھی تھی۔ (جواہر البیان فی اسرار الارکان، ص11)
اللہ پاک کی اُن پر رحمت ہو اور اُ ن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مُدرِّس جامعۃ المدینہ ،ماریشس
Comments